80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے، جب کراچی میں ایسے حالات بھی ہوا کرتے تھے کہ رات گئے تک ہم کزنز سڑکوں پر سائیکلنگ کیا کرتے تھے، نائٹ کرکٹ ہوا کرتی تھی اور پولیس والے بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔
ایک روز شام کے وقت کرکٹ کھیل کر ہم واپس گھر کی جانب لوٹ رہے تھے کہ ایک مکان جس میں حال ہی میں نئے لوگ آئے تھے، اس کا چھوٹا گیٹ کھلا اور ایک بھاری بھرکم شخص نمودار ہوا۔
اس پر ہم نے کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن ابھی ہم نے ایک اور قدم اٹھایا بھی نہیں تھا کہ ہم چاروں کزنز اپنی جگہ پر جم کر رہ گئے۔ اس شخص کے ہاتھ میں موٹی زنجیر تھی اور اس زنجیر کے دوسرے سرے پر ایک شیر تھا جو گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔
چڑیا گھر کے علاوہ شیر اتنے قریب سے دیکھنے کا پہلا موقع تھا اور بخوبی اندازہ ہو گیا کہ اس کو جنگل کا بادشاہ کیوں کہتے ہیں۔ یہ صاحب اس شیر کو لے کر سڑک ہی پر سیر کرنے لگ گئے۔
یہ ان صاحب اور ان کے ’پالتو‘ شیر کی ایک روٹین سی بن گئی اور پہلے روز اگر ہم چار کزنز ہی نے اس کو دیکھا ہو گا تو چند ہی روز میں اس گھر کے سامنے مجمع لگنے لگ گیا جس میں زیادہ تر بچے اور نوجوان ہی شامل ہوتے تھے۔
شیر کے مالک نے ہم کو پہلے دن ہی خبردار کیا کہ اس کے زیادہ قریب نہیں آنا اور دوسرا یہ کہ اس کے آس پاس کسی قسم کی اچانک حرکت یا موومنٹ نہیں کرنی۔ ان دو ایس او پیز کا خاص رکھا جاتا تھا۔ لیکن انھوں نے ایک اور ایس او پی سے ہمیں آگاہ نہیں کیا تھا۔
پھر ایک دن یہ ہوا کہ ہم حسب معمول کرکٹ کھیل کر واپس لوٹتے ہوئے شیر کے دیدار کو رک گئے اور جو بات روزانہ پوچھی جاتی تھی وہی سوال دہرائے جا رہے تھے کہ کیا کھاتا ہے، کیا عمر ہے، کاٹے گا تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔
ابھی سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ میرے ہی کزن کے ہاتھ میں کرکٹ کا بلا تھا اور اس نے بلا اپنے کندھے پر رکھنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ شیر بجلی کی طرح مڑا اور میرے کزن کے جانب لپکا اور غرایا۔
شکر ہے مالک نے زنجیر کس کے پکڑی ہوئی تھی۔ حالات قابو میں آئے اور اس وقت اس نے ہمیں تیسرا ایس او پی بتایا کہ اس سے بلے دور رکھو کیونکہ جانور ہے حملہ کر دے گا۔ یہی تو اصل بات تھی اور ہے۔ جانور ہے حملہ کر سکتا ہے۔
ابھی دو روز قبل ہی کراچی کے رہائشی علاقے میں ایک شخص اپنا ’پالتو‘ شیر لے کر سڑک پر کھڑا تھا۔ شام کا وقت تھا اور چند ہی لوگ کے آس پاس کھڑے تھے۔
چند ہی منٹوں کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک چار یا پانچ سال کا بچہ بھی قریب ہی کھڑا ہے اور شیر ایک دم مڑتا ہے اور اس بچے کو دبوچ لیتا ہے۔
لوگ اس کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شکر ہے کہ خبروں کے مطابق بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی نجی چڑیا گھر یا ’پالتو‘ شیر یا تو گھر سے نکل آئے یا پھر ان کے مالک ان کو لے کر کراچی کی سڑکوں پر ایسے پھرتے ہوئے نظر آئے جیسے کہ گاڑی میں شیر نہیں بلکہ کتے لے کر جا رہے ہیں۔
عام افراد کی بات کیا کرنی ہمارے ہاں تو سیاسی جماعت اپنی ریلیوں میں شیر کو لیے پھرتے ہیں اور کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا۔
سندھ میں کُل 52 نجی چڑیا گھر موجود ہیں۔ ان نجی چڑیا گھروں کو سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن 10 کے تحت اجازت ملی ہوئی ہے۔ نجی چڑیا گھر کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی فیس محض دس ہزار روپے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک شیر روزانہ ساڑھے تین کلو گوشت کھاتا ہے یعنی مہینے کا تقریباً ایک سو کلو سے زیادہ گوشت۔ شیر رکھنا میرے جیسوں کا تو کام ہے نہیں ہے۔
ایک اچھی نسل کا ایلسیشن کتا ہی کم از کم 50 ہزار میں ملتا ہے تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیر کا بچہ کتنے کا ملتا ہو گا۔ تو جو لوگ شیر پالتے ہیں ان کے لیے دس ہزار کیا شے ہے۔
چلے کوئی بات نہیں لائسنس بھی محض دس ہزار فیس کے عوض دے دیا گیا۔ کیا ایسے چڑیا گھروں کی سالانہ جانچ پرتال کی جاتی ہے کہ جانوروں کو کس حال میں رکھا گیا ہے، ان کے ساتھ بدسلوکی تو نہیں کی جاتی، ان کی خوراک کا خاص خیال رکھا جاتا ہے یا نہیں؟
ابھی گذشتہ دنوں ہی ایک ویڈیو میرے ساتھ شیئر کی گئی جس میں لاہور کی کاروباری شخصیت اپنے شیر کو قابو کرنے کے لیے اس پر تھپڑوں کی بارش کر رہا ہے اور نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر ساڑھی پہنے ایک کونے میں دبکی دکھائی دے رہی ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ نے کراچی کے حالیہ واقعے کے حوالے سے کہا کہ تفتیش شروع کر دی ہے۔ قانوناً شیر یا ٹائیگر جیسے جانوروں کو رہائشی علاقوں میں رکھنا جرم ہے۔
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے بعد اب محکمے کے پاس قانونی اختیارات آ گئے ہیں کہ اس قسم کے جانوروں کو غیر قانونی طور پر رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔
لیکن آخر ایسے جانور خریدوفروخت کے لیے کیسے دستیاب ہیں؟ اس کی ذمہ داری ان پر جاتی ہے جنہوں نے ان جانوروں کی درآمد کے لیے ’گائیڈ لائنز فار امپورٹ آف بگ کیٹس‘ کے ذریعے راہ ہموار کی۔ اس پالیسی میں اہم جزو کو نظر انداز کیا گیا کہ ایسے جانوروں کی درآمد کی اجازت دی جاتی ہے جو فرٹائل نہ ہوتے یعنی بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2020 کے قانون سے قبل نجی چڑیا گھروں یا افراد کو جانور رکھنے کی تو اجازت دی گئی تھی لیکن اس قانون میں یہ کہیں واضح نہیں کیا گیا تھا کہ کس قسم کے جانور رکھے جا سکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں۔
اسی قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں نے شیر اور ٹائیگر جیسے جانور درآمد کرنے شروع کر دیے۔
اب جبکہ نیا قانون منظور کر لیا گیا ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ سندھ کا محکمہ جنگلی حیات ایسے تمام نجی چڑیا گھروں اور وہ افراد جنہوں نے ایسے جانور پال رکھے ہیں، ان کا جائزہ لے گا اور کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کرے گا۔
یاد رکھیں یہ تو 100 فیصد یقینی بات ہے کہ یہ جنگلی جانور ہیں اور جنگلی جانور کی جبلت کسی بھی وقت جاگ سکتی ہے اور ان کی دیکھ بھال اور ان کو ہینڈل کرنے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
کراچی کا واقعہ ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور بطور معاشرہ اس حوالے سے کام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔