کراچی میں گلشن حدید کے علاقے گلشن معظم کے ایک نجی فارم سے منگل کی رات دو شیر فرار ہو گئے جس کے باعث علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
نجی فارم کے قریب ہی واقع ایک مدرسے کے طلبہ نے ان شیروں کو اپنے پنجرے سے باہر آزادی سے گھوتے ہوئے دیکھا۔ ان شیروں کے مالک محمد زوہیب علی کے نجی فارم میں کل چھ ’پالتو‘ شیرہیں۔
علاقہ مکینوں کی جانب سے اطلاع ملنے پر محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم نے شیروں کو قابو میں کیا جس کے بعد وزیرجنگلی حیات ناصر حسین شاہ کے احکامات پر معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی۔ بدھ کی صبح زوہیب کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے محکمہ جنگلی حیات کے دفتر بلایا گیا تھا۔
چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات سندھ جاوید مہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان ’پالتو‘ شیروں کے مالک کے پاس نجی فارم میں شیر رکھنے کا لائسنس موجود نہیں اور جو لائسنس انہوں نے اپنے بیان کے ساتھ جمع کروایا اس کی معیاد دو سال قبل ختم ہوگئی تھی اور اس میں درج پتہ بھی غلط ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے لائسنس کی کاپی کے مطابق زوہیب علی نامی شہری نے 25 اپریل، 2019 کو محکمہ جنگلی حیات سندھ سے 10 ہزار روپے میں، نجی چڑیا گھر کے لیے ایک پرمٹ حاصل کیا تھا جس کی معیاد صرف 30 جون، 2019 تک تھی۔ اس پرمٹ پر سرجانی والا کمپاؤنڈ اقبال مارکیٹ کراچی کا پتہ درج ہے۔
جاوید مہر کے مطابق زوہیب کے شیر جس علاقے سے ملے ہیں وہ گلشن حدید ہے ناکہ سرجانی ٹاؤن، جو پرمٹ پر درج ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا پرمٹ پچھلے دو سالوں سے رینیو نہیں کروایا۔ ’تاہم ان کی حالیہ لاپرواہی کے بعد شیروں کو جلد از جلد ضبط کر کے کراچی کے چڑیا گھر منتقل کیا جائے گا۔‘
کیا لوگوں کو اپنے گھروں، نجی فارم اور منی زو میں شیر رکھنے کی اجازت ہے؟ اس سوال کے جواب میں چیف کنزرویٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگوں کو محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے شیر درآمد کرنے اور بڑے یا چھوٹے پیمانے پر بنے چڑیا گھروں میں شیر رکھنے کی اجازت ہے لیکن قانون کے تحت شیروں کو رہائشی علاقوں یا نجی فارم میں رکھنے کی اجازت نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈینینس کے سیکشن 22 کے تحت زوہیب کے چھ شیروں کو حکومت سندھ تحویل میں لے کر کراچی کے چڑیا گھر میں منتقل کر دے گی۔
البتہ اس حوالے سے ان شیروں کے مالک زوہیب علی کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے کو بلا وجہ متنازع بنایا جا رہا ہے۔ اصل میں صرف ایک ہی شیر اپنے پنجرے سے باہر نکلا تھا۔ ’میرے تمام شیر پالتو ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ہم نے ان شیروں کو بچپن سے پالا ہے۔ ہمارے پاس دو سائبیرین ٹائیگر اور چار افریقی شیر ہیں۔ ہمارے شیر بالکل کتے کی طرح پالتو ہیں۔ سب کچھ میرے اشارے پر کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق انہوں نے یہ شیر تب درآمد کیے تھے جب ان کی عمر دو سال تھی۔ ان کے یہ شیر کسی پر جان لیوا حملہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ شکار کرنا جانتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر ان شیروں کو جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو یہ کچھ ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں گے کیونکہ وہ شکار نہیں کرنا جانتے۔ ہم اپنے پالتو شیروں کو روزانہ کی بنیاد ہر حلال چکن کھلاتے ہیں۔‘
اس حوالے سے جاوید مہر نے بتایا کہ شیروں کو پالنے کے شوقین افراد ان پر ظلم کرتے ہیں۔ ’پالتو شیروں کے پنجوں میں سے ناخنوں کو جڑ سے نکال دیا جاتا ہے اور ان کے جبڑے میں موجود نوکیلے کینائن دانتوں کو جن کی مدد سے وہ شکار کر کے گوشت کھاتے ہیں، انہیں بھی جڑ سے نکال دیا جاتا ہے۔‘
جاوید مہر کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ یہ شیر اپنی قدرتی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پالتو شیروں کے مالکان انہیں زیادہ سے زیادہ بریڈ کرواتے ہیں اور لاکھوں روپے میں انہیں فروخت کرتے ہیں۔‘
زوہیب علی نے آج کی سماعت میں محکمہ جنگلی حیات میں اپنا پرانا نجی چڑیا گھر کا لائسنس اور بیان جمع کروا دیا ہے، البتہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے شیروں کو تحویل میں لے کر چڑیا گھر بھیجا جائے کیوں کہ وہاں ان کی صحیح دیکھ بھال نہیں ہوگی اور نہ انہیں صحیح خوراک مل سکے گی۔