خیبر پختونخوا: 14 سال سےکم عمر کے ملازم رکھنے پر پابندی کی سفارش

صوبائی حکومت نے گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کی تیاری کر لی ہے جس کی سفارشات جلد کابینہ کو بھیجی جائیں گی۔

آٹھ جون 2020 کو کم عمر گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف کراچی میں ایک مظاہرہ (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت نے گھریلو ملازمین کے لیے ایک باقاعدہ قانون بنانے کی تیاری مکمل کر لی ہے اور اس سلسلے میں سفارشات بھی مرتب کر لی گئی ہیں، جن کو کابینہ میں پیش کرنے کے بعد بہت جلد صوبائی اسمبلی سے بھی منظور کروا کر قانونی شکل دے دی جائے گی۔

ان سفارشات کی رو سے 14 سال سے کم عمر گھریلو ملازم رکھنے پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ گھریلو ملازمین کو رکھنے کے لیے اب مالکان اور ملازمین کے درمیان معاہدہ ہوگا جس کے مطابق کسی گھریلو ملازم سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جائے گا، نہ ہی بغیر نوٹس کے ان کو نوکری سے نکالا جائے گا۔

مرتب کردہ سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی ملازم کے ساتھ رنگ نسل فرقے یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک برتنا غیر قانونی ہوگا،  لہذا جہاں کسی بھی گھر کی اطلاع حکومت کو ملی تو محکمہ محنت ایسے گھر پر چھاپہ مارنے کا مجاز ہوگا۔

تاہم ان سفارشات میں یہ ذکر کہیں نہیں مل رہا کہ اگر کوئی ملازم بغیر اطلاع کے غائب ہو جائے، یا پھر بیماری یا کسی اور ضروری کام کا بہانہ بنا کر مسلسل غیر حاضر رہے، یا مالک کی بدنامی کا باعث بنے، یا چوری کرے تو ایسی صورت میں مالکان کے حقوق کا کیسے خیال رکھا جائے گا۔

مزید یہ کہ سفارشات میں صرف 14 سال سے کم عمر بچوں کا ذکر ہے تو کیا 16، 17 سال کے نابالغ بچوں کا گھروں میں کام جائز ہے۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے خیبر پختونخوا کے معروف کارکن عمران ٹکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 18 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو گھریلو ملازم کے طور پر رکھنا قانونی جرم ٹھہرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ملازمین کے لیے 14 سال کی شرط رکھنا نہ صرف ’چائلڈ ڈیفینشین‘ کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس بین الاقوامی معاہدہ برائے اطفال کی بھی خلاف ورزی ہے پر پاکستان نے 1990 میں دستخط کیے تھے اور جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو بچہ مانا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران ٹکر نے بتایا کہ جب پاکستان کی حکومت یہ مان چکی ہے کہ 18 سال سے کم عمر کا فرد بچہ مانا جائے گا تو پھر گھریلو ملازمت، اجرت یا دورانیے کی بات بالکل بے معنی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ان سفارشات میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اس کو قانون کا حصہ بنانا درست نہیں ہوگا۔ 18 سال تک بچے کو تعلیم اور تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-اے کے مطابق یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو سکولوں میں لائے۔ لیکن یہاں تو حکومت خود بچوں کی گھریلو مشقت کو قانونی حیثیت دے رہی ہے۔‘

اس موضوع پر حکومت کا موقف لینے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نےخیبر پختونخوا کے وزیر محنت وثقافت شوکت یوسفزی سے استفسار کیا کہ کیا مرتب کردہ سفارشات کی رو سے چودہ سال سے زائد عمر کے بچوں کا گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے کو حکومت درست قرار دے رہی ہے، تو کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر بحث کرنے سے قبل معاشرے میں مختلف عوامل کو دیکھنا چاہیے۔

شوکت یوسفزی نے کہا: ’یہاں غربت ہے، کسی کا والد نہیں تو کسی کا روزگار نہیں۔ مختلف حالات ہو سکتے ہیں اس لیے اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ جن 14 سال سے بڑی عمر کے بچوں کے لیے کام کرنا مجبوری ہے تو وہ گھریلو ملازم کے طور پر کام کر سکیں گے تاہم ان کے لیے اب ایک قانون بھی ہوگا جو ان کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔‘

مالکان کے حقوق کے حوالے سے وزیر محنت وثقافت کچھ نہ کہہ سکے لیکن انہوں نے کہا کہ جب سفارشات کابینہ سے منظور ہو کر اسمبلی میں آئیں گے تو اس پر سیرحاصل بحث ہوگی اور اس طرح سفارشات میں جو کمی بیشی ہوگی اس میں ترامیم لاکر ایک کمیٹی بنا دی جائے گی اور کمیٹی کے فلٹر سے گزرنے کے بعد ہی کہیں اس کو قانون کا درجہ حاصل ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ دو، تین ہفتوں میں یہ سفارشات تمام مراحل طے کر لیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان