تمہاری افواہ ہماری خبر ہوتی ہے

جموں و کشمیر میں ایک طرف اس خطے کو مزید توڑنے، حصے بخرے کرنے، ہندو بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے دوسری جانب عوام کو افواہوں میں جکڑ کر ذہنی امراض کے مریض بنایا جا رہا ہے۔

کیریکیچر: الشرق الاوسط

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


آپ کو یاد ہوگا جب 2013 میں خبر رساں ادارے اے پی کی ویب سائٹ کو ہیک کر کے امریکی صدر باراک اوبامہ کے بارے میں ایک ٹویٹ جاری ہوا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں ایک دھماکے میں زخمی ہوگئے ہیں۔ چند لمحوں میں عالمی اقتصادی منڈیوں میں ایک طوفان برپا ہوا اور آنا فانا 130 ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ بروقت کارروائی کے نتیجے میں ٹویٹ کو ہٹا کر اس خبر کی تردید کی گئی۔

یہ غالبا سوشل میڈیا پر اتنی بڑی اور جھوٹی خبریں پھیلانے کی سنگین شروعات تھی۔ جب سے میڈیا آزاد ہوا اور سوشل میڈیا عام لوگوں کا ذریعہ اظہار بن گیا تب سے نہ صرف جرنلزم کے بنیادی اصول بدل گئے ہیں بلکہ میڈیا کا اعتبار بھی روز بروز مشکوک بنتا جا رہا ہے۔

یہ بات ماننی ہوگی کہ سوشل نیٹ ورک نے مختلف ممالک اور معاشروں کے درمیان فاصلے مٹا دیئے ہیں مگر اس نے بعض ملکوں اور معاشروں کو غیرمستحکم بھی کر دیا ہے۔ اب دنیا کو سپرہائے وے کے مایا جال میں اس طرح جکڑ لیا گیا ہے جیسے جسم کے ایک نظام میں مختلف اعضا جوڑ دیے گئے ہیں۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ’سپر ہائے وے کا قصور نہیں مگراس کو اپنانے والوں کو ذہنی بصیرت اور بالیدگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ گولی سے بھی زیادہ گہرا زخم دیتی ہے۔‘

گوکہ سوشل میڈیا پر اب افواہوں کا بازار ہر پہر کھلا رہتا ہے لیکن امیر ملکوں میں اب ایسا نظام بھی بنایا جانے لگا ہے جو جھوٹی خبروں کا پتہ لگا سکے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عالمی سطح پر مجرموں کے ایک بڑے گروہ کا پتہ لگا کر سینکڑوں افراد کو 16 ممالک میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ پھر بھی مستحکم اداروں کے ہوتے ہوئے افواہوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچ نہیں پا رہے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر رچرڈ بریڈفورڈ کہتے ہیں کہ ’شاید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو محفوظ بنانے کے لیے تعلیم یا تجربے کا علم ہی کافی نہیں ہے بلکہ کنڑول کرنے کا سخت نظام بھی ہونا چاہیے ورنہ یہ بدمست ہاتھی کی طرح سب کو کچل کے رکھ دے گا۔‘

جنوب ایشیائی ممالک میں خاص طور پر بھارت پاکستان میں محال ہی کوئی دن گزرتا ہے جب مختلف افواہیں گردش میں نہیں ہوتیں یا عوام کا ابتدائی ردعمل جاننے کے لیے جان بوجھ کر افواہیں پھیلائی نہ جاتی ہوں۔ ان افواہوں کا مقصد عوام میں افراتفری پھیلانا ہوتا ہے یا انہیں خرافات میں مصروف رکھنا ہوتا ہے۔

امریکی محقق جےسن ہارسن نے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی خبروں کو ’افواہ بم‘ سے تعبیر کیا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ ان افواہوں کی حقیقت تلاش کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر اس کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ یہ ایک منٹ میں دنیا کو الٹ پلٹ کرسکتی ہیں۔

پاکستان میں آج کل یہ افواہ گرم ہے کہ وہ امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کرنے والا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان کے فضائی اڈوں کو استعمال کر نے کی خواہش رکھتا ہے۔ ماضی میں وہ بغیر اجازت بھی پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرتا آیا ہے اور چند اڈے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔

امریکہ نے ویسے بھی دوسرے ممالک کی سالمیت پر وار کرنے میں ہمیشہ سبقت حاصل کر لی ہے جس کی یاد اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں سے تازہ کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی ایک اور جھلک کشمیر میں بھی عنقریب دیکھنے کو ملے جہاں بھارتی فوج کی مزید کمپنیوں کی تعیناتی سوشل میڈیا کا ایک بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ ان اطلاعات کو اب تک افواہ کا نام دیا گیا ہے۔

پاکستان میں امریکہ کو پھر سے اڈے دینے کی افواہیں تو گرم ہیں ہی تو کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ اس پر ریفرنڈم کروایا جائے جیسا کہ جمہوریت کا تقاضا ہے؟ ابھی شاید برصغیر میں اتنی تہذیب یا بصیرت نہیں آئی ہے کہ سکاٹ لینڈ کی طرح آزادی مانگنے کے لیے ریفرنڈم کروائے جائیں گے اور پھر حکومت برطانیہ اس کی اجازت بھی دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برصغیر میں جمہوریت پانچ سال بعد محض ووٹ دینے تک محدود ہے اور انتخابات کے بعد عوام کو صرف لال بتی دکھائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام افواہوں یا جھوٹی خبروں سے اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں۔

بھارت میں خاص طور سے متنازعہ علاقوں میں افواہیں پھیلانے پر باظابطہ ایک نظام کام کر رہا ہے۔

دنیا ایک ارب مارکیٹ کی لالچ میں اب بھی اسے ایک بڑی جمہوریت سمجھتی ہے جہاں نہ تو آئین کی پاسداری ہے، نہ وفاقی نظام مضبوطی سے قائم ہے اور نہ انتخابی کمیشن کا تقدس رہا ہے۔ بھارتی حکومت آئین میں درج 30 فیصد اقلیتوں کا تحفظ کیے بغیر ہی شہریت کا ترامیمی بل پاس کرتی ہے، جموں و کشمیر کی اسمبلی کے بغیر اس کا آئین ہی ہڑپ کرتی ہے اور بھاری اکثریت سے جیتنے والی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی کو چیف سیکرٹری کی تقرری پر وفاقی نظام کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔

پھر سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی پھیلائی جاتی ہیں کہ بنگال، تامل ناڈو، یا آسام میں قومی شناخت کے مقابلے میں مقامی شناخت کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں تاکہ ریاستی سرکار کا قافیہ تنگ کرنے کے لیے جواز پیدا کیا جاسکے۔

کشمیر پہلے ہی ایک فوجی چھاؤنی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بجائے اس کے کہ سرکار فوج کی تعداد کم کرتی وہ مزید کمپنیاں تعینات کر رہی ہے اور مزید تعیناتی کے بارے میں کچھ وضاحت بھی نہیں کرتی۔ الٹا افواہیں پھیلا کر خطے میں بےیقینی کو اس قدر گہرا کر دیا ہے کہ یہ افواہ نہیں بلکہ ایک ایٹم بم ضرور بن رہی ہیں کہ جس کی لپیٹ میں آ کر عوام سسکنے لگے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت عوام کو باخبر رکھنا تھا مگر کشمیر میں باخبر رکھنے سے زیادہ اسے ہراساں کرنے اور بے یقینی پھیلانے پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔

جموں و کشمیر میں ایک طرف اس خطے کو مزید توڑنے، حصے بخرے کرنے، ہندو بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے دوسری جانب عوام کو افواہوں میں جکڑ کر ذہنی امراض کے مریض بنایا جا رہا ہے۔

دنیا کے باقی حصوں میں افواہیں اکثر مرتبہ غلط ثابت ہوتی ہیں لیکن جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے وہاں کی افواہ فورا مستند خبر کی شکل اختیار کرتی ہے اور یہاں کے ایک کروڑ عوام اس کے عینی شاہد ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ