جب چین میں آم عام ہوگیا

چین میں ایک ڈاکٹر کا قصہ کافی مشہور ہے۔ انہوں نے کہیں کہہ دیا کہ آم کچھ اتنا خاص بھی نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگ اس قدر ناراض ہوئے کہ انہیں پہلے تو ٹرک کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا اور پھر انہیں بیچ چوراہے میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

ایک چینی خاتون (سٹیکی یا چپکے ) چاول کے ساتھ آم کھا رہی ہیں۔ یہ ایک مقبول مقامی کھانا رہا ہے (اے ایف پی)

آم پاکستان کا قومی پھل ہے۔ پاکستانی شاید ہی کسی اور قومی چیز سے اتنی محبت کرتے ہوں جتنی وہ آم سے کرتے ہیں۔ ہمارا آم ہی کچھ ایسا ہے۔ میٹھا، رس بھرا اور خوشبو دار۔

اسلام آباد سے اڑھائی ہزار میل دور بیجنگ میں آم بس ایک عام سا پھل ہے۔ یہاں لوگ زیادہ تر سیب، کیلا، تربوز، آڑو یا چیری ٹماٹر کھاتے ہیں۔ مارکیٹ اور بازاروں میں بھی آم نمایاں کر کے نہیں رکھے ہوتے یعنی پھلوں کے بادشاہ کا زور بھی چین پر نہیں چلتا۔

تاہم، کچھ دہائیوں قبل آم کو چین میں مقدس پھل کا درجہ حاصل تھا۔ اس وقت چینی عوام آم کے عشق میں کچھ اس قدر مبتلا تھے کہ وہ اس کی خاطر لڑنے مرنے پر اتر آتے تھے۔

چین میں آم تیرہ سو سال قبل سے کاشت کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ان کی مقبولیت میں اضافہ 70 کی دہائی میں ہوا۔ مئی 1968 میں چینی رہنما ماؤ زے تنگ نے 30 ہزار مزدور کارکنان کو شنہوا اور پیکنگ یونیورسٹی کے طالب علموں پر مشتمل ریڈ گارڈ نامی ایک جماعت سے نمٹنے کے لیے بھیجا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت ماؤ کی حمایت سے ہی بنی تھی لیکن اب ماؤ اس کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس ’آپریشن‘ کے دوران کافی طلبہ مارے گئے۔ مرنے والوں کا حال دیکھ کر باقیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یوں آپریشن اپنی کامیابی کو پہنچا۔

مزدور کارکنان کی اس کامیابی پر ماؤ نے انہیں 40 آم بطور تحفہ بھیجے جو انہیں کچھ ہی دن قبل پاکستان کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔

ان مزدوروں کے نزدیک ماؤ کا مقام ایک ایسے رہنما کا تھا جس کی خاطر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔ ایسے رہنما کی طرف سے تحفہ ملنا ان کے لیے بہت بڑی بات تھی۔

پر یہ تحفہ تھا کیا۔ انہوں نے اس سے پہلے نہ آم کا نام سنا تھا، نہ اسے دیکھا تھا اور نہ ہی کھایا تھا۔ کارکنان نے آم ایک میز پر سجا دیے اور  پوری رات انہیں دیکھتے اور سونگھتے رہے۔ اگلے دن فیصلہ ہوا کہ ان آموں کو کھایا نہیں جائے گا بلکہ محفوظ کیا جائے گا۔ ایک تو ماؤ کا تحفہ اور وہ بھی اتنا نایاب۔ اس تحفے کا محفوظ ہونا ہی بنتا تھا۔

وہ آم ایک ہسپتال کی مدد سے محفوظ کر کے شیشے کے ڈبوں میں رکھے گئے۔ جیسے ہی کوئی آم خراب ہونے لگتا، اسے پانی میں ابالا جاتا اور اس پانی کو سب میں بانٹا جاتا تاکہ سب تک اس مقدس پھل کے ثمرات پہنچ سکیں۔

اس وقت موم سے نقلی آم بھی بنائے جو ہر ادارے میں بھیجے گئے۔ آج بھی چین کے کئی اداروں میں وہ آم موجود ہیں۔ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ اصلی نہیں بلکہ نقلی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کارکنان آم کو اتنی عزت صرف ماؤ کی وجہ سے دے رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ماؤ کا انہیں ایک نایاب پھل تحفے میں دینا ان کی بے غرضی کی علامت ہے جبکہ حقیقت میں ماؤ کو آم کچھ خاص پسند نہیں تھے۔ انہوں نے خود کو موصول ہوا تحفہ بس آگے چلا دیا تھا۔

اس کے بعد چین میں ہر طرف آم ہی آم ہو گئے۔ اسی سال چین کے قومی دن کے موقعے پر جو پریڈ ہوئی اس میں بڑے بڑے آم ایک جگہ سجا کر رکھے گئے تھے۔

اس کے علاوہ آم کے نام سے سگریٹ کا ایک برانڈ بھی شروع ہوا تھا۔ چینی زبان میں آم کو مَنگ وا کہا جاتا ہے۔ ان سگریٹوں کا نام اسی مناسبت سے مَنگ وا رکھا گیا تھا۔ اس وقت چین میں آم کی مقبولیت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ تاجروں نے ہر چیز پر آم کی تصویر چھاپنی شروع کر دی تھی۔ اب چاہے وہ پینسلوں کے کیس ہو یا دیوار پر سجانے والا شیشہ، ہر چیز پر آم کی شبیہ موجود ہوتی تھی۔ اس دوران ہی چین میں بڑے پیمانے پر آم کاشت کیے جانے لگے اور آج چین آم پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

اس حوالے سے کسی گاؤں میں رہنے والے ایک ڈاکٹر کا قصہ کافی مشہور ہے۔ انہوں نے کہیں کہہ دیا کہ یہ پھل کچھ اتنا خاص بھی نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگ ان کی اس بات پر اس قدر ناراض ہوئے کہ انہیں پہلے تو ایک ٹرک کے پیچھے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا گیا تاکہ دیگر ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور پھر انہیں بیچ چوراہے میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ چینی عوام کی آم کے حوالے سے یہ دیوانگی ختم ہو چکی ہے۔ جدید چین میں آم بس ایک پھل ہے۔ کسی کا کھانے کا دل کرے تو خرید کر کھا لیتا ہے۔ بس۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ