جنگ بندی کے ایک ماہ کے اندر ہی اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے

اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں فضائی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہے جن میں غزہ سے کیے جانے والے دہشت گرد اقدامات کے جواب میں نئی جنگ بھی شامل ہے۔‘

اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کے علاقوں میں آتشی مواد بھرے غباروں سے 10 مقامات پر آگ لگنے کے بعد بدھ کو اس نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔

فی الوقت کسی جانب سے جانی نقصان کی اطلاعات نہیں۔ دی انڈپینڈنٹ کے مطابق مئی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان شدید لڑائی ختم کروانے والی جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر پہلی بار فضائی حملے کیے گئے ہیں۔

اس سے پہلے منگل کو اسرائیلی قوم پرستوں نے ریلی نکالی جس نے بیت المقدس میں مارچ کیا۔ ریلی کے بعض شرکا نے ’عرب مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔
 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں فضائی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہے جن میں غزہ سے کیے جانے والے دہشت گرد اقدامات کے جواب میں نئی جنگ بھی شامل ہے۔‘

قوم پرستوں کا مارچ

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی شہریوں کا مارچ ملک کی نئی حکومت اور اس کمزور جنگ بندی کے لیے امتحان بن گیا ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ ماہ حماس اور اسرائیل کے درمیان 11 دن جاری رہنے والی لڑائی بند ہوئی۔

یہ مارچ ہر سال  1967میں مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی خوشی میں منایا جاتا ہے جسے فلسطینی ایک اشتعال انگیز عمل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مشرقی بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔  

حماس نے فلسطینیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس پریڈ کی مزاحمت کریں۔ ایسا ہی مارچ ان وجوہات میں شامل تھا جو گذشتہ ماہ غزہ اور اسرائیل کی 11 روزہ لڑائی کا سبب بنی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلند آواز میں موسیقی کے ساتھ سینکڑوں یہودی قوم پرست دمشق گیٹ کے سامنے جمع ہوئے اور مارچ کیا۔ مارچ کے زیادہ تر شرکا نوجوان تھے۔ متعدد نے اسرائیل کا نیلا اور سفید رنگ کا پرچم تھام رکھا تھا۔

مارچ میں شامل افراد نے رقص کیا اور مذہبی گیت گائے۔ ایک موقعے پر متعدد نوجوانوں نے اچھل کود کرتے ہوئے ہاتھ فضا میں بلند کیے اور ’عرب مردہ باد‘کے نعرے لگائے۔ ایک اور عرب مخالف نعرے میں ’خدا کرے آپ کا گاؤں جل جائے‘کے الفاظ استعمال کیے گئے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپید نے اپنی ٹویٹ میں مارچ میں لگائے جانے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے نسل پرستانہ نعرے ’اسرائیل کے عوام کی توہین ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے انتہا پسند موجود ہیں جن کے لیے اسرائیلی پرچم نفرت اور نسل پرستی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ عمل قابل نفرت اور ناقابل معافی ہے۔‘

شوروغل برپا کرنے والا ہجوم گذشتہ مارچ کی پریڈ کے مقابلے میں کہیں چھوٹا دکھائی دے رہا تھا۔ مارچ کے شرکا دمشق گیٹ سے قدیم شہر میں واقع دیوار گریہ کی طرف چلے گئے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یہودی دعا مانگتے ہیں۔

مارچ سے پہلے اسرائیلی پولیس نے دمشق گیٹ کے سامنے کے علاقے کو خالی کروایا، سڑکیں ٹریفک کے لیے بند کر دیں، دکانیں بند کرنے کا حکم دیا اور مظاہرہ کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ 17 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن پر تشدد میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔ ان میں بعض افراد نے پتھراؤ اور پولیس پر حملہ کیا جس کے بعد دو پولیس اہلکاروں کو طبی امداد دی گئی۔ فلسطینیوں کے مطابق اسرائیلی پولیس کے ساتھ جھڑپ میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔

یہ پریڈ اسرائیل کے نئے وزیر اعظم نفتالی بینٹ کے لیے اپنے اقتدار کے شروع میں ہی ایک چیلنج بن گئی۔ سخت گیر اسرائیلی قوم پرست وزیر اعظم نے حقیقت پسندانہ سوچ کا وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ ایک کمزور اور ایسی مخلوط حکومت کے سربراہ ہیں جس میں مختلف جماعتیں شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا