’فہمیدہ کی کہانی‘ سنانے والی بیگم خورشید شاہد چل بسیں

ماضی کی سینئیر ریڈیو صدا کار اور ٹی وی اداکارہ بیگم خورشید شاہد کا انتقال لاہور میں 95 برس کی عمر میں ہوا۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھیں۔

بیگم خورشید شاہد معروف اداکار سلمان شاہد کی والدہ ہیں (فوٹو: سلمان شاہد فیس بک اکاؤنٹ)

ماضی کی سینئیر ریڈیو صدا کار اور ٹی وی اداکارہ بیگم خورشید شاہد ہفتے کی رات 95 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھیں۔

بیگم خورشید شاہد معروف اداکار سلمان شاہد کی والدہ ہیں۔ سلمان شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میرے لیے ماں تو وہ تھیں ہی لیکن وہ میری مینٹور بھی تھیں اور میری دوست بھی۔ میں چونکہ اکلوتا بیٹا تھا، لہذا میرے لیے صرف وہ ہی تھیں۔ ان کی وفات مجھ سے میری دوست بھی لے گئی، استاد بھی اور ماں بھی۔‘

بیگم خورشید شاہد نے گذشتہ 18 برس سے انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔

19 نومبر 1931 کو پیدا ہونے والی بیگم خوشید شاہد نے دہلی سے بطور اداکارہ اور گلوکارہ اپنے کیرئیر کا آغاز نو برس کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو سے کیا۔ انہیں موسیقی سے بھی خاصا لگاؤ تھا۔ بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پر صداکاری بھی کی اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

سلمان شاہد نے بتایا کہ ان کی والدہ نے اپنے کیریئر کا آغاز نئی دہلی میں آل انڈیا ریڈیو سے بچوں کے ایک پروگرام سے کیا اور اس میں ایک گانے کی دھن بھی بنائی۔ بقول سلمان: ’انہیں موسیقی کا بہت شوق تھا، لیکن انہوں نے باقاعدہ موسیقی نہیں سیکھی۔ اسی سلسلے میں روشن آرا بیگم کے ایک شو میں بھی انہوں نے تانپورہ بجایا تھا۔‘

1947 میں بیگم خورشید ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئیں اور یہاں لاہور کے تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ 1964 میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن کا حصہ بنیں اور پی ٹی وی کے معروف ترین ڈراموں میں اداکاری کی۔ ان کے مشہور ڈراموں میں اشفاق احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ ’فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘کا نام سرفہرست ہے۔

انہوں نے چند فلموں میں بھی کام کیا جن میں ’چنگاری‘ اور ’بھولا ساجن‘ کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1995 کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

بیگم خورشید شاہد نے اپنے بیٹے کے ساتھ بھی متعدد ڈراموں میں کام کیا۔ ان کے مقبول ڈراموں میں ’کرن کہانی‘، ’زیر زبر پیش‘، ’انکل عرفی‘، ’پرچیاں‘ اور ’دھند‘ سمیت دیگر ڈرامے شامل ہیں۔

ان کی شادی سلیم شاہد کے ساتھ ہوئی۔ وہ ریڈیو کے پروڈیوسر تھے، جو بعد میں برطانیہ چلے گئے اور وہاں کام کیا۔

بیگم خورشید شاہد اور ان کے بیٹے سلمان شاہد کے قریبی دوست اور معروف اداکار عثمان پیرزادہ نے خورشید شاہد کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بیگم خورشید شاہد کی صلاحیت تو اپنی جگہ لیکن وہ انتہائی خود مختار اور پختہ ارادوں والی خاتون تھیں۔ میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں کیونکہ وہ میرے والد کی شاگرد تھیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’خورشید شاہد اپنے آپ میں اداکاری کا ایک ادارہ تھیں۔ ان کا اداکاری اور موسیقی سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے سلمان شاہد میرے بچپن کے دوست ہیں اور ہم نے اکٹھے بہت کام کیا۔ بیگم خورشید کے ساتھ بھی بہت کام کیا۔ وہ اپنے طریقے کی خاتون تھیں۔ پورا دن کس طرح گزارنا ہے اس کے لیے ان کے اپنے اصول ہوا کرتے تھے۔ وہ وقت کے مطابق چلتی تھیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے۔ بہت خودمختار خاتون تھیں اور اپنے زیادہ تر کام وہ خود کرنا پسند کرتی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عثمان پیرزادہ نے بتایا کہ ’خورشید شاہد نے اپنا کیرئیر تو ہندوستان کی تقسیم سے پہلے شروع کر دیا تھا لہذا وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں، جنہوں نے 70، 80 برس پہلے اپنا  کام شروع کیا تو وہ اداکارہ کسی ادارے سے کم نہیں ہوں گی۔ دنیا ان کے کام کو جانتی ہے، وہ ایک مثالی شخصیت تھیں۔‘

دوسری جانب پی ٹی وی کے سابق جنرل مینیجر، ڈرامہ نگار اور اجوکہ تھیٹر کے ڈائریکٹر شاہد ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’خورشید شاہد اور ان کے خاندان کو میں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ انہوں نے میرے ساتھ کوئی بہت زیادہ کام تو نہیں کیا لیکن ان کے بیٹے سلمان شاہد اجوکہ تھیٹر کا حصہ تھے، جب ہم نے اسے شروع کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خورشید شاہد تقسیم سے پہلے کے آرٹسٹوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ’انہوں نے لکشمی مینشن میں بھی رہائش اختیار کی، یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں بہت بڑی بڑی شخصیات مقیم رہیں، جن میں سعادت حسن منٹو اور معراج خالد بھی شامل تھے۔‘

بقول شاہد ندیم: ’وہ اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص تھیں اور انہوں نے بہت عمدہ کام کیا، لیکن یہ بھی ہے کہ وہ شوبز سے کتراتی تھیں۔ ان کا ایک بہت محدود حلقہ ہوتا تھا جس میں وہ اٹھتی بیٹھتی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’خورشید شاہد کے شوہر جب برطانیہ چلے گئے تو اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اکیلے اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں گزاری اور بہت باوقار طریقے سے گزاری۔ وہ ہمیشہ اچھا پہنتی تھیں اور گفتگو بھی بہت اچھی کیا کرتی تھیں۔‘

’ان کی زندگی آرٹ کے گرد ہی گھومتی تھی، اپنے وقت میں وہ کلچرل آرٹ ایلیٹ کا حصہ ہوتی تھیں اور فنکاروں و اداکاروں کی تقربات میں ایک اہم شخصیت کے طور پر جاتی تھیں۔ یقیناً ان کا جانا بہت بڑا نقصان ہے۔‘

خورشید شاہد کی نماز جنازہ اتوار کو چار بجے ڈیفنس فیز ٹو کی مسجد میں کی جائے گی جبکہ تدفین فیز سیون کے قبرستان میں کی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن