جوڑوں سے ’کڑک‘ کی آواز کیوں نکلتی ہے؟

جوڑوں سے آواز کیوں نکلتی ہے، کیا خواتین ایک وقت میں زیادہ کام کرنے میں مردوں سے بہتر ہیں، بعض بچے جڑے ہوئے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ ان سوالات کے سائنسی جواب

عام طور پر یہ آواز اس وقت سنائی دیتی ہے جب جوڑ کو حرکت دی جاتی ہے یا اسے پھیلایا جاتا ہے (پکسابے)

درحقیقت کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جوڑوں سے ’کڑک‘ کی آواز آنے کا سبب کیا ہے، لیکن اس حوالے سے کئی ممکنہ نظریات موجود ہیں۔

عام طور پر یہ آواز اس وقت سنائی دیتی ہے جب جوڑ کو حرکت دی جاتی ہے یا اسے پھیلایا جاتا ہے۔

ایسا ممکن ہے کہ جوڑ کے اندر موجود سیال مادے کا دباؤ کم ہوجاتا ہو جس کے نتیجے میں گیس کا بلبلہ پیدا ہوتا ہو جو آواز کا سبب بنتا ہو۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ آواز جوڑوں کے سرے الگ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ سرے الگ ہونے سے جوڑ میں موجود خالی جگہ کی سِیل کھل جاتی ہے۔

کیا خواتین ایک وقت میں زیادہ کاموں کو مرد حضرات سے بہتر انجام دیتی ہیں؟

شاید ایسا ہو۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین ایک ہی وقت میں مختلف کاموں کو نمٹانے میں مرد حضرات سے اوسطاً بہتر ہیں۔ اس جملے میں ’اوسطاً‘ کے اہم الفاظ کا مطلب ہے کہ کاموں کی انجام دہی میں ایک اوسط خاتون کی کارکردگی ایک اوسط مرد کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر خاتون ہر مرد سے بہتر ہوتی ہے۔ ارتقا کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایسا اس لیے ہو کہ ابتدائی انسانی معاشرے میں بچوں کی پرورش کی تمام تر ذمہ داری عورت پر ہو۔ اس لیے انہیں خطرے کے حوالے سے چوکس رہنے اور پودوں پر مبنی خوراک کی تلاش کے دوران بچوں کی فرمائشیں بھی پوری کرنی پڑتی ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گوشت کے لیے جانوروں کا شکار مردوں کی ذمہ داری تھی اس لیے انہیں ذہنی طورپر اپنی توجہ ایک جگہ مرکوز کرنی پڑتی تھی۔ اس طرح کے نظریات گھڑنا تو آسان کام ہے لیکن یہ درست بھی ہوں یہ ثابت کرنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔

انسانی کروموسوم کا نقشہ تیار کرنے کے لیے کس کا ڈی این اے استعمال کیا گیا؟

کروموسوم پر تحقیق کے لیے سرکاری سطح کے فنڈ سے شروع کیے گئے منصوبے میں ’جینوم‘ (والد یا والدہ کے جینز پر مشتمل کروموسومز کا سیٹ جو اولاد کو منتقل ہوتا ہے) کسی ایک فرد سے نہیں لیا گیا۔ اسے 20 رضاکاروں پر مشتمل پینل سے حاصل کیا گیا تھا، جس میں مختلف لسانی اور سماجی پس منظر کے افراد شامل ہیں۔ سائنس دانوں نے عطیہ دینے والوں کی بافتوں (ٹشوز) کے نمونے حاصل کیے۔ رضاکاروں کے نام نہیں بتائے گئے اس لیے نہ تو ڈونرز کو پتہ تھا اور نہ ہی سائنس دانوں کو کہ کس کے ڈی این اے کا نقشہ کیا تیار کیا جا رہا ہے۔

ہر کسی کا جینوم ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ (ماسوائے ہم شکل جڑواں بچوں کے) لیکن بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ انسانوں میں تقریباً 99.99 فیصد ڈی این اے یکساں ہوتا ہے۔ جینوم کا یہ نقشہ انفرادی جینومز کا امتراج ہوتا ہے۔ چونکہ بڑے پیمانے پر ہمارا ڈی این اے مشترک ہے اس لیے تقریباً یہ پورا نقشہ سب کے لیے ہے، لیکن اس میں چھوٹے موٹے فرق بھی موجود ہیں۔ جینوم کے مفید حصے میں محض چند قسم کے فرق ہوتے ہیں اور یہ فرق ہی بالوں کے رنگ، خون کے گروپس اور وراثت میں ملنے والی بیماریوں کا سبب ہوتے ہیں۔ اب جبکہ جینوم کا نقشہ تیار کر لیا گیا ہے، ماہر جینیات اس قابل ہو جائیں گے کہ ہمارے جینوم میں موجود فرق کا زیادہ آسانی کے ساتھ پتہ لگا لیا جائے جو ہمیں ایک دوسرے سے مختلف افراد بناتے ہیں۔

بعض جڑواں بچے جڑے ہوئے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

اس معاملے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ بچوں کے مکمل ہونے کے عمل کے دوران کوئی غلطی ہو جاتی ہو جس کا عام طور پر نتیجہ ایک جیسی خصوصیات کے مالک جڑواں بچوں کی صورت میں سامنے آئے گا۔ جب اکیلا بیضہ ابتدائی دنوں میں تقسیم ہوتا ہے تو اس وقت جنین خلیوں کے ایک گیند سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس وقت یہ گیند دو حصوں میں بٹ کر ایک جیسے جڑواں بچوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ ایک بچہ مر جاتا ہے اور دوسرا معمول کے مطابق بڑا ہوتا ہے، تاہم بعض اوقات دونوں بچے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور نتیجہ جڑواں بچوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

جڑئے ہوئے جسم والے بچے نامکمل طور پر تقسیم ہونے والے بیضے کا نتیجے ہوتے ہیں۔ یہ بیضہ کچھ خلیوں کو چھوڑ دیتا ہے جو بڑے ہوتے بچوں کے درمیان پل قائم کر دیتے ہیں۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ جڑواں بچوں کا جسم آپس میں کیوں جڑا ہوا ہوتا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ ایسا ’کیوں‘ ہوتا ہے۔ عام طور پر جب فرٹیلائزڈ بیضے مکمل طور پر تقسیم ہونے میں ناکام رہتے ہیں تو ایک یا دونوں بچے ضائع ہو جائیں گے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جڑواں بجے زندہ پیدا ہوں اور ان کے جسم آپس میں جڑے ہوئے ہوں۔

اگرچہ جڑے ہوئے جسم والے جڑواں بچے بہت کم ہوتے ہیں لیکن زرخیز بیضوں کی تقسیم کوئی انوکھی بات نہیں ہے، اس لیے یہ سوال کرنے کی بجائے کہ بیضہ کیوں تقسیم ہوتا ہے (جس کے بارے میں سائنسدان نہیں جانتے) شاید ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ جسم یہ کیسے جانتا ہے کہ حمل کو کب ضائع کرنا ہے اور جڑے ہوئے جسم والے بچوں کے معاملے میں یہ نظام کام کیوں نہیں کرتا۔ سائنسدان اس سوال کا جواب بھی نہیں جانتے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس