اخلاقیات کا پہلا اصول: لوگوں سے ذاتی سوالات نہ پوچھیں

ہم سے روزانہ ان باکس میں ذاتی باتیں پوچھی جاتی ہیں، اور جب ہم سوال کریں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ویسے ہی پوچھ رہے تھے؟

 (پکسا بے)اخلاقیات کا پہلا سبق یہی ہے کہ دوسروں سے ’بس ویسے ہی‘ سوال نہ پوچھا کریں

ہم سے اکثر لوگ کچھ ایسے سوالات کر لیتے ہیں جو ہمارے خیال میں انہیں نہیں کرنے چاہییں۔

مثلاً فیس بک پر ایک صاحب ہیں، جو نہ ہماری فرینڈ لسٹ میں شامل ہیں، نہ ہم انہیں یا وہ ہمیں کسی حوالے سے جانتے ہیں اور نہ ہماری کبھی بات چیت رہی ہے، پھر بھی وہ ہمارے ان باکس میں تشریف لاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ پاکستان کب واپس آ رہی ہیں؟

ہمارے ان باکس میں کئی طرح کے پیغام آتے ہیں۔ ہائے، ہیلو، ڈیئر، تحریم، سنو، گڈ مارننگ، گڈ نائٹ، وغیرہ وغیرہ پر ایسا ذاتی سوال وہ بھی بغیر کسی سیاق و سباق کے ہمیں پہلے پہلی بار وصول ہوا ہے۔ ہمارے گھر والے تک ہم سے یہ سوال نہیں پوچھتے پر ان صاحب کا خود پر اعتماد دیکھیں، نہ جان نہ پہچان، سیدھا ’آپ پاکستان کب آ رہی ہیں‘ کے ساتھ ہمارے ان باکس میں موجود ہیں جیسے انہوں نے کہیں سدھارنا ہو اور وہاں جانے سے پہلے اپنی جائیداد ہمارے نام کرنا چاہتے ہوں۔

یہ صاحب اکیلے نہیں ہیں۔ ان جیسے ہزاروں ہیں جو انتہائی بے تکلفی سے ایسے ایسے سوال پوچھ لیتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ ان کی شکل دیکھتا رہ جاتا ہے۔ مثلاً ’آپ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ۔‘ ’شادی شدہ ہیں تو بال دار ہیں یا نہیں۔‘ ’نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں؟‘ ’ہیں تو اگلے کی تیاری کر رہے ہیں یا نہیں۔‘ ’آمدن کتنی ہے؟‘ ’اخراجات کتنے ہیں؟‘ ’سب ختم ہو جاتے ہیں یا کچھ بچتے بھی ہیں؟‘ ’بچتے ہیں تو اب تک کتنے ہو گئے؟‘ ’ان کا کہیں استعمال بھی کیا یا یونہی رکھ چھوڑے ہیں؟‘ ’گھر اپنا ہے یا کرائے کا؟‘ ’اپنا ہے تو کب لیا تھا، کتنے کا لیا تھا؟‘ ’کرائے کا ہے تو کرایہ کتنا ہے، مالک مکان کیسا ہے؟‘ وغیرہ وغیرہ

ہم دیسیوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم ہر ایک سے ہر قسم کا سوال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ معاشرتی چلن کچھ ایسا ہے کہ اگلا آگے سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔ بات گھمانی آتی ہو تو گھما دیتا ہے ورنہ شرمندہ ہوتے ہوئے جیسے تیسے کر کے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔

کوئی ہمارے جیسا ڈھیٹ ہو تو ہلکے پھلکے الفاظ میں احتجاج بھی کر لیتا ہے کہ دیکھیں آپ سے ہمارا جیسا بھی تعلق ہو، یہ سوال اس تعلق کی حدود سے باہر ہے۔ سوال پوچھنے والے آگے سے دس گنا ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم تو بس ویسے ہی پوچھ رہے تھے، اس میں برا منانے والی کیا بات ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جناب، برا منانے والی بات ہے تبھی تو لوگ آپ کے ان سوالات کا برا مناتے ہیں۔ ہماری کتنی ہی دوستیں ایسی ہیں جو ان سوالات کی وجہ سے لوگوں سے ملنا جلنا تقریباً ترک کر چکی ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ وہ کہیں جائیں گی تو ان سے وہی سوالات پوچھے جائیں گے جو نہیں پوچھے جانے چاہییں۔ اسی طرح بہت سے مرد بھی اپنے جاننے والوں سے ’بس ویسے ہی‘ پوچھے جانے والے سوالات کی وجہ سے ملنے سے کتراتے ہیں۔

اخلاقیات کا پہلا سبق یہی ہے کہ دوسروں سے ’بس ویسے ہی‘ سوال نہ پوچھا کریں۔ سوال پوچھنے سے پہلے سوال پوچھنے کی اجازت لے لیا کریں۔ اس سے اگلے انسان پر آپ کا اچھا تاثر پڑتا ہے۔ دوسرا، وہ انسان بھی آپ سے کسی قسم کا ذاتی سوال پوچھنے سے باز رہتا ہے ورنہ ایک سوال آپ پوچھیں گے۔ دوسرا سوال وہ پوچھے گا۔ آپ سے شاید اپنا پوچھا گیا سوال ہضم ہو جائے پر ان کا پوچھا گیا سوال آپ کا ہاضمہ خراب کر سکتا ہے۔

عمر، شادی، بچے، تنخواہ اور بچت جیسے سوالات تو اپنی پٹاری سے نکال کر باہر پھینک دیں۔ کسی کو بھی ایسے سوال اچھے نہیں لگتے۔ یہ ذاتی باتیں ہیں جو لوگ دوسروں سے نہیں کرنا چاہتے۔ اگر سامنے والا انجان ہو، اس صورت میں تو دگنی احتیاط کریں۔ انجان لوگوں کی کہانیاں سننا کسے اچھا نہیں لگتا۔ اس کے لیے اخبارات، رسائل، جرائد اور کتابیں موجود ہیں۔ وہ پڑھیں۔ کوئی خود سے اپنے بارے میں بات کرے تو بس اس کی بات سن لیں۔ آگے سے سوال نہ کریں۔ تجسس کی خاطر تو بالکل نہ کریں کہ وہ آپ کے سوال سے پہلے ان تک پہنچ جاتا ہے۔

اپنی اور دوسروں کی زندگی کے درمیان ایک لکیر کھینچیں۔ آپ اپنی زندگی جییں اور دوسروں کو ان کی زندگی جینے دیں۔ اسی میں جینے کا مزہ ہے۔ جتنا آپ کسی کی زندگی میں گھسیں گے، اتنا ہی وہ بھی آپ کی زندگی میں گھسے گا اور اپنی پرائیویسی تو سب کو ہی پیاری ہوتی ہے۔ سو، اس کی خاطر اپنے سوالات پر بند باندھیں۔

آج کا سبق یہیں ختم کرتے ہیں۔ اگلا سبق پھر کسی روز سہی۔ رب راکھا!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ