فی الحال دفاع، جلد جارحانہ پوزیشن میں آ جائیں گے: افغان وزیرِ داخلہ

افغانستان کے وزیر داخلہ عبدالستار میرزکوال نے ایک انٹرویو کے دوران کہا: ’دنیا توقع کر رہی تھی کہ طالبان تبدیل ہوجائیں گے لیکن وہ تبدیل نہیں ہوئے۔۔۔ وہ ملک کی تعمیر نو کے لیے بھی پرعزم نہیں ہیں۔‘

افغانستان کے وزیر داخلہ عبد الستار میرزکوال نے امریکی انخلا کے بعد فضائی مدد نہ ہونے کے باعث کئی اضلاع پر طالبان کے قبضے کے تناظر میں کہا ہے کہ افغان فضائیہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

افغانستان کے کلیدی نشریاتی ادارے’طلوع نیوز‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں وزیر داخلہ عبدالستار میرزکوال نے طالبان کے تبدیل نہ ہونے والے رویے کے بارے میں کہا: ’دنیا توقع کر رہی تھی کہ وہ (طالبان) تبدیل ہوجائیں گے لیکن وہ تبدیل نہیں ہوئے۔ وہ خواتین اور انسانی حقوق کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ وہ ملک کی تعمیر نو کے لیے بھی پرعزم نہیں ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم پوری قوت سے ان کا دفاع کریں گے۔ ہمارے پاس اب طاقتورفضائیہ ہے۔ ہمارے پاس صلاحیت موجود ہے۔ مسئلہ ہم آہنگی ہے، جسے ہم حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک دفاعی نظام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شہر ہماری ریڈ لائنز ہیں۔‘

’ریڈ لائنز‘ سے افغان وزیر داخلہ کی مراد یہ تھی کہ سکیورٹی فورسز ملک کے شہری مراکز کی بھرپور حفاظت کریں گی۔

عبد الستار میرزکوال نے مزید کہا: ’ابھی ہم دفاعی پوزیشن پر ہیں، لیکن ہم جلد ہی فوجی کارروائیوں کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ ہماری فضائیہ روزانہ زیادہ طاقتور ہو رہی ہے۔ ہمارے تمام سازو سامان جدید ہوچکے ہیں اور جلد ہی ہم جارحانہ پوزیشن میں واپس آجائیں گے۔‘

افغان وزیر داخلہ نے یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب افغان طالبان نے حال ہی میں قندھار کے ایک اہم ترین ضلعے اور اپنے سابقہ گڑھ پر رات کے وقت حکومتی فورسز کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد قبضہ کیا ہے، جس کے بعد بڑی تعداد میں وہاں سے لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔

جب سے امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا عمل شروع کیا ہے، طالبان عسکریت پسندوں نے پورے افغانستان کے دیہی علاقوں پر قبضہ کرنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔

جنوبی صوبہ قندھار کے ضلعے پنجوائی پر طالبان کا قبضہ امریکی اور نیٹو افواج کے بگرام ہوائی اڈہ خالی کرنے کے دو روز بعد ہوا ہے۔ یہ ہوائی اڈہ دارالحکومت کابل کے قریب ہے اور یہاں سے امریکی اتحادی افواج دو دہائیوں تک طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔

طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ضلع پنجوائی پر قبضے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ صوبہ قندھار کو طالبان کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے، جہاں 2001 میں امریکی حملے سے قبل طالبان کی سخت گیر حکومت قائم تھی۔

ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے پنجوائی کے ضلعی پولیس ہیڈکوارٹرز اور گورنر کے دفتر کی عمارت پر قبضہ کیا ہے۔

قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ سعید جان خاکری وال نے اس کی تصدیق کی ہے لیکن حکومتی فورسز کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

’طالبان امن نہیں چاہتے‘

اے ایف پی کے مطابق پنجوائی سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی گیران نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے ان کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی تھی۔ ’ہماری گاڑی پر بھی کم از کم پانچ گولیاں لگی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں کوئی امن نہیں ہے، اگر ایک ہیلی کاپٹر یہاں آتا تو یہ تمام قندھار کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ ان (طالبان) کے خلاف ہیلی کاپٹر کیوں نہیں استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے مجھے نشانہ بنایا، انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ اگر انہوں نے مجھے قتل کردیا تو کون ہے جو میرے بچوں کی دیکھ بھال کرے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سرحدی پولیس کے کمانڈر اسد اللہ نے بتایا ہے کہ ’طالبان پہاڑوں پر موجود ہیں اور ہر حرکت کرنے والی گاڑی پر فائرنگ کر رہے ہیں کیوں کہ وہ امن نہیں چاہتے۔‘

اسد اللہ کے مطابق: ’صرف سرحدی پولیس مزاحمت کر رہی ہے جبکہ فوج جس کے پاس زیادہ بہتر اسلحہ موجود ہے لڑائی میں حصہ ہی نہیں لے رہی ہے۔‘

پنجوائی صوبہ قندھار کا پانچواں ضلع ہے جس پر حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان نے قبضہ کیا ہے۔  طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک میں موجود 400 میں سے 100 اضلاع پر مکمل قبضہ کرلیا ہے۔

اگرچہ افغان حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے لیکن اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چند اضلاع سے حکومتی دستوں نے پسپائی اختیار کی ہے، تاہم آزاد ذرائع سے صورتحال کی تصدیق کرنا کافی مشکل ہے۔

کابل کے شمال میں قائم کیا گیا بگرام ہوائی اڈہ خالی کیے جانے کے بعد یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ عسکریت پسند نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کی مہم کو مزید تیز کر دیں گے۔

اس ہوائی اڈے کی بڑی فوجی اور علامتی اہمیت ہے۔ یہاں سے غیر ملکی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں فضائی مدد فراہم کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا