’علی وزیر پر الزام دہشت گردی کا، مقدمات کی نوعیت معمولی‘

پیر کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں علی وزیر کی نااہلی کی درخواست پر سماعت جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

بجٹ اجلاس کے آخری دن علی وزیر کو پروڈکشن آرڈر پر پیش کیا گیا تاہم انہوں نے میڈیا نمائندگان کو کوئی بھی کمنٹ دینے سے اجتناب کیا (فائل/ اے ایف پی)

پشتون تخفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی اسمبلی رکنیت معطل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران ممبر الیکشن کمیشن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ارٹیکل 63 جی کے تحت رکن کی نااہلی کے لیے سزا لازم ہے، اگر رکن کو سزا ہو تو وہ اسمبلی رکنیت کے لیے اہل نہیں ہو گا۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 جی کے مطابق اگر کوئی رکن اسمبلی کسی بھی عدالت سے درج ذیل جرائم میں سزا یافتہ ہو جن میں ’ملکی سالمیت کے خلاف کردار یا پھر ایسا بیان جو نظریہ پاکستان سے متصادم ہو، ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہو‘ تو پھر وہ قومی اسمبلی کی رُکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔

پیر کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں علی وزیر کی نااہلی کی درخواست پر سماعت جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی درخواست 63 جی کے تحت نا اہلی نہیں بلکہ 63 پی ہے جس کے تحت سزا یافتہ یا کسی آئینی ملکی سلامتی کی خلاف ورزی ہونے پرعارضی طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے نا اہلی کی جاتی ہے۔

الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کو مکمل شواہد جمع کرانے کا آخری موقع دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن نے کیس کے ساتھ شواہد مانگے تھے، الیکشن کمیشن نے علی وزیر کے خلاف کیسوں کی ایف آئی آرز اور ان پر پیش رفت کی تفصیلات مانگی تھیں  جو تاحال جمع نہیں کرائے گئے۔

گذشتہ سماعت میں درخواست گزار کے وکیل نے علی وزیر کے بیانات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں پیش کیا تھا۔

رکن الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے واضح کیا کہ اگر رکن کو سزا ہو تو وہ اسمبلی رکنیت کے لیے اہل نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن میں ابھی تک رکن اسمبلی کے خلاف مستند پولیس رپورٹیں جمع نہیں کرائی گئیں۔

اس موقع پر وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آرز کی مصدقہ نقل کے لیے متعلقہ صوبوں کے ہوم ڈپارٹمنٹس کو لکھا ہے، امید ہے پانچ چھ روز میں مل جائیں گی۔ علی وزیر کی تین پشتو تقاریر کا ترجمہ کرا کے ٹرانسکرپٹ  تیار کرنے کا کام پشاور یونیورسٹی کو دے دیا ہے۔

درخواست گزار فضل خان کے وکیل نے ارکانِ الیکشن کمیشن کو بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے میری درخواست پرعلی وزیر کی نا اہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا تھا۔ واضح رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے رواں برس جنوری میں شکایات موصول ہونے پر علی وزیر کی رُکنیت ختم کرنے کے لیے ریفرنس الیکشن کمیشن بھجوایا تھا۔

اس پر الیکشن کمیشن نے استفسار کیا: ’آپ نے کہا کہ علی وزیر دہشت گرد ہیں، علی وزیر کے خلاف ایف آئی آرز کس سیکشن کے تحت درج ہیں؟ زیادہ تر ایف آئی آرز تو معمولی نوعیت کی ہیں۔ کسی بندے کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔ انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں ایس ایچ او نے ملزم کے خلاف شیڈول فورکے تحت اقدام کیوں نہیں کیا؟‘

الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اس کیس کے حوالے پہلے خود مطمئن ہونا چاہتے ہیں، پھر فریق کو نوٹس جاری کریں گے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 13 جولائی تک ملتوی کر دی۔

درخواست کا متن کیا تھا؟

علی وزیر کے خلاف درخواست تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فضل خان نے دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ رکن اسمبلی علی وزیر مُلک مخالف تقاریر کر کے قومی اسمبلی میں لیے گئے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں آرٹیکل 63 پی کے تحت کچھ وقت کے لیے رکنیت سے نا اہل کیا جائے۔

واضح رہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف مجرمانہ سازشوں کے الزام میں گذشتہ برس ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ عدالت حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پی ٹی ایم کے مبینہ غیر قانونی آپریشنز اور سرگرمیوں، ممبرشپ، فنڈز اور روابط کو بے نقاب کرنے کے لیے تحقیقات کرے۔

علی وزیر کو کب گرفتار کیا گیا اور کیوں؟

علی وزیر کو گذشتہ برس دسمبر میں پشاور پولیس نے آرمی پبلک اسکول حملے کے متاثرہ والدین کے احتجاجی دھرنے سے گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں پشاور کی مقامی عدالت نے علی وزیر کو سندھ پولیس کے حوالے کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

پشاور پولیس حکام کے مطابق علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں گذشتہ سال چھ دسمبر کو دفعات 505 بی، 153 اے، 120 بی، 34، 506 اور 188 کے تحت مقدمات درج ہیں اور ان ہی دفعات کے تحت پشاور کی پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔

گذشتہ ماہ قومی اسمبلی میں تین ہفتے جاری رہنے والے بجٹ اجلاس کے آخری دن علی وزیر کو پروڈکشن آرڈر پر پیش کیا گیا تاہم انہوں نے وہاں میڈیا نمائندگان کو کوئی بھی کمنٹ دینے سے اجتناب کیا تھا۔

اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے قومی سلامتی امور پر پارلیمانی اجلاس، جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی تھی، اُس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے علی وزیر کو معاف کرنے کی بات کی۔ پارلیمانی صحافی رضوان غلزئی جو اجلاس کی کوریج کے لیے موجود تھے، انہوں نے رپورٹ کیا کہ ’پارلیمانی دفاعی کمیٹی اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کو کہا علی وزیر کو معاف کردیں، آرمی چیف نے کہا سیاستدان ہمارے نام لے کر بات کرتے ہیں لیکن ادارے کو گالی دینا ناقابل قبول ہے، علی وزیر کو معافی مانگنا پڑے گی۔‘

علی وزیر کا آرمی چیف کو خط

قومی سلامتی کمیٹی کے پارلیمانی اجلاس کی خبریں سامنے آنے پر علی وزیر نے آرمی چیف کو کُھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ’تاریخ میری سچائی ثابت کرے گی! مجھے سات ماہ کی قید کے بعد پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے عارضی رہائی دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں مزید لکھا گیا کہ’ اِس دوران مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ نے مبینہ طور پر گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے اراکین کو’قومی سلامتی‘ پر ان کیمرہ بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ اگر میں آپ سے معافی مانگوں، تب ہی مجھے رہائی ملے گی!‘

خط میں کہا گیا  کہ ’آپ کا مجھ سے معافی کا مطالبہ کرنا ہی اِس تلخ حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس ملک میں حکمرانی، جزا و سزا کا اختیار کس کے پاس ہے؟ اور کون مجھے بار بار زندانوں میں ڈالتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ، آپ کا یہ مطالبہ قطعاًغیر جمہوری، غیر آئینی، اورغیر قانونی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان