کراچی: ’فوج اور پولیس کے درمیان جھگڑوں کا نوٹس اعلیٰ قیادت لے‘

وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان کے مطابق سکیورٹی ادارے کے اہلکار اور کلفٹن پولیس کے درمیان تنازع دونوں اداروں کی اعلیٰ قیادت میں بات چیت کے بعد حل ہو گیا ہے جس کے بعد طے یہ پایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔  

سندھ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق بعد میں ڈیڑھ درجن فوجی اہلکاروں نے کلفٹن تھانے پہنچ کر اہلکار کو مارنے والے پولیس اہلکاروں کی حوالگی کا مطالبہ کیا (اے ایف پی/ فائل)

وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان کے مطابق سکیورٹی ادارے کے اہلکار اور کلفٹن پولیس کے درمیان تنازع دونوں اداروں کی اعلیٰ قیادت میں بات چیت کے بعد حل ہو گیا ہے جس کے بعد طے یہ پایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔  

واضح رہے کہ گذشتہ شب کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے توحید کمرشل پر راستہ نہ دینے پر پاکستان فوج کے ایک افسر نے پولیس موبائل کے ڈرائیور کو ساتھ لے جانے کی کوشش کی، جس کے بعد کلفٹن میں بلاول چورنگی کی پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے بعد ہوائی فائرنگ بھی کی گئی، مگر پولیس نے اپنے ساتھی اہلکار کو جانے نہیں دیا۔

سندھ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق بعد میں ڈیڑھ درجن فوجی اہلکاروں نے کلفٹن تھانے پہنچ کر اہلکار کو مارنے والے پولیس اہلکاروں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران کچھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

رات گئے تک فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے درمیان مذاکرات کے بعد اس تنازعے کا حل نکال لیا گیا۔  

کراچی میں مسلح افواج اور پولیس کے درمیاں یہ پہلا تنازع نہیں  

اکتوبر 2020 میں مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی مزار قائد پر نعرے بازی کے خلاف مقدمہ دائر نہ کرنے پر آئی جی سندھ کو مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے۔  

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج اور ان کی گرفتاری سے پہلے آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے کا نوٹس لیں اور اس معاملے کی انکوائری کروائیں۔ 

اس واقعے کے خلاف سندھ پولیس کے تین درجن سے زائد اعلیٰ افسران نے احتجاجاً چھٹی کی درخواستیں بھی دی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واقعے کے 20 دن بعد نومبر میں فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کی کراچی میں حراست اور اس سے قبل سندھ کے انسپکٹر جنرل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کے بعد واقعے میں ملوث پاکستان رینجرز اور  خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے متعلقہ افسران کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ 

اس کے علاوہ رواں سال مئی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا کہ کراچی کے ضلع کیماڑی کے ماری پور تھانہ کی حدود ہاکس چیک پوسٹ پر نیوی کے افسر سے تکرار کے بعد با وردی اہلکار پولیس اہلکاروں کے ساتھ مار پیٹ کر رہے تھے۔  

اس واقعے میں پولیس کے پانچ اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے، تاہم تاحال کوئی قانونی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ 

’سکیورٹی اداروں کو ایسے واقعات کا نوٹس لینا چاہیے‘

سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، نیشنل پولیس اکیڈمی اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سابق کمانڈنٹ اور دفاعی تجزیہ نگار افضل شگری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کے واقعات جن میں مسلح افواج اور پولیس میں کسی بات پر تنازع ہو جائے، عالمی سطح پر عام بات ہے، مختلف ممالک میں ایسا ہو جاتا ہے، مگر یہ واقعات زیادہ ہو رہے ہیں تو پھر ایسے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اعلیٰ قیادت ایسے واقعات کا نوٹس لے، کیوں کہ امن و امان کی صورتحال فوج اور پولیس کا مشترکہ کام ہے، اس لیے ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے۔‘ 

’یہ نہ سمجھیں کہ پاکستان فوج ایسے واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت ایسے واقعات کو سنجیدگی سے لیتی ہے، ہر واقعے کے بعد ایک مشترکہ کمیٹی بنتی ہے، جس میں سویلین کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور واقعے کی مکمل تحقیق کرکے قصوروار کو سزا بھی دی جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب میں آئی جی سندھ تھا تو اس وقت پولیس کے ساتھ پاکستان نیوی کے اہلکاروں کا جھگڑا ہوا تھا اور سارا الزام پولیس اہلکاروں پر ڈالا گیا، مگر بعد میں مشترکہ کمیٹی میں جب ہم نے ثبوت دیے تو معاملہ حل ہوا۔ تو اب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان