عرفان احمد دو سال پہلے گاڑیوں کو اون منی پر بیچنے کا کاروبار کرتا تھا، پھر گاڑیاں مہنگی ہو گئیں اور مانگ میں کمی آ گئی۔
اس کی وجہ سے کاروں کی قیمتیں گرنے لگیں۔ کار کمپنیوں نے مفت کار رجسٹریشن کی آفر نکال دی۔ نتیجتاً اون ملنا تقریباً بند ہو گیا۔ اس نے کاروبار سے پیسہ نکالا اور کسی اور جگہ سرمایہ کاری کر دی۔
کل وہ بڑی کار کمپنیوں کی رجسٹرڈ ڈیلر شپس پر گیا تو علم ہوا کہ اون کا کاروبار دوبارہ بہت زوروں پر ہے۔ تقریباً ایک کروڑ کی سرمایہ کاری پر سالانہ 20 لاکھ روپے خالص منافع بآسانی کمایا جا سکتا ہے۔
اسی دوران ایک کار ڈیلر نے اسے بتایا کہ ’نئی آٹو پالیسی آ گئی ہے، جس کے بعد کچھ کار کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتیں کم کر دی ہیں اور کچھ چند روز میں کم کر دیں گی، مارکیٹ میں بے یقینی کی سی کیفیت ہے اس لیے ابھی سرمایہ کاری نہ کرو بلکہ کچھ دن انتظار کر لو، جب مارکیٹ سنبھل جائے تب سرمایہ لگانا۔‘
عرفان تصدیق کرنے کے لیے دوسری کار کمپنی کی رجسٹرد ڈیلر شپ پر گیا تو ان کا موقف مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت فیصلہ واپس لیتے وقت بھی دیر نہیں لگاتی، کبھی قیمتیں بڑھا دیتی ہے اور کبھی گرا دیتی ہے۔‘
وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مارکیٹ میں بہت زیادہ بےیقینی کی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ فنانس بل کی بات کر رہے ہیں، کچھ بجٹ تقریر پر یقین کر رہے ہیں اور کچھ آٹو پالیسی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بنیاد بنا پر گاڑیوں کی قیمتوں کے بارے اندازے لگا رہے ہیں۔ لیکن جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ بجٹ، فنانس بل اور آٹو پالیسی کو ملا کر پڑھے جانے کی ضرورت ہے۔
اس نے حکومتی ویب سائٹ سے متعلقہ ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا تو اسے معلوم ہوا ہے کہ پہلے سرکار نے صرف 850 سی سی گاڑیوں کی قیمتوں پر ڈھائی فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم کی تھی، جس کے بعد دیگر کار ساز کمپنیوں نے بھی ریلیف کا مطالبہ کیا۔ انہیں نئی آٹو پالیسی میں ریلیف دینے کی یقین دہانی کروائی گئی۔
عرفان نے آٹو پالیسی بارے استفسار کیا تو کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں آٹو پالیسی کا رجحان زیادہ پرانا نہیں ہے۔ پہلی آٹو پالیسی پانچ سال پہلے 2016 میں پیش کی گئی تھی جو جون 2021 میں ختم ہو گئی ہے۔
جولائی 2021 میں دوسری آٹو پالیسی پیش کر دی گئی۔ اس کا نام نیو آٹو اینڈ ایکسپورٹ پالیسی رکھا گیا ہے جو کہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت گاڑیوں اور ان کے پارٹس کی برآمدات پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ جاننے کے بعد عرفان سوچنے لگا کہ ارادہ کرنے اور عمل درآمد کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک کس طرح آٹو سپیئر پارٹس برآمد کرے گا، کیا حکمت عملی ہو گی اور کون سی ٹیم اسے عملی جامہ پہنائے گی۔
تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس بارے میں حکومتی حلقے اور سرکاری فائلیں ابھی تک خاموش ہیں۔
اس نے بجٹ ڈاکومنٹ اور آٹو پالیسی میں پڑھا کہ نئی آٹو پالیسی کے مطابق کمپنیوں کو طرح طرح کی مراعات دی گئی ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ حکومت تو آٹو مینوفیکچررز کو یہ سہولتیں فراہم کر رہی ہے، اصل فائدہ تو اس وقت ہو گا جب کمپنیاں بھی عوام تک یہ ریلیف صحیح معنوں میں اور مکمل طور پر منتقل کریں گی۔
ممکنہ طور پر سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی میں کمی براہ راست عوام کو منتقل ہو سکے گی کیونکہ اسے عوام سے چھپانا تقریباً ناممکن ہے۔ جہاں تک سی کے ڈی یونٹس پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کا معاملہ ہے تو کمپنیوں پر منحصر ہے کہ عوام تک کتنا ریلیف منتقل کرتی ہیں۔
یہ وہ ریلیف ہے جو خالصتاً گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو دیا گیا ہے۔ وہ اس میں سے کتنا حصہ خود رکھتی ہیں اور کتنا صارفین کو منتقل کرتی ہیں یہ ہر کمپنی کی اپنی پالیسی پر منحصر ہے۔ جو جتنا فائدہ صارف کو پہنچائے گا، اس کی سیل بھی اتنی ہی زیادہ بڑھنے کی امید ہے۔
تمام کمپنیوں کی ڈیلر شپس پر جا کر عرفان کو معلوم ہوا کہ تقریباً تمام کار کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتیں کم کر دی ہیں۔ لیکن جب اس نے گاڑیوں کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے ماہرین سے اس بارے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سپیشل کسٹم ڈیوٹی کم ہونے کا جو فرق آنا چاہیے تھا وہ پوری طرح نہیں آ سکا۔
شاید کمپنیاں درآمد کی جانے والی کٹس کی قیمتوں میں کمی کو اپنا منافع بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
عرفان جب گھر واپس آیا تو اس نے ٹی وی پر دیکھا کہ حکومت گاڑیوں کی قیمت کم ہونے پر شادیانے بجا رہی ہے لیکن عرفان مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو گیا۔
وہ سوچنے لگا ہے کہ ایک طرف گاڑیوں پر ٹیکسز کم کیے جارہے ہیں اور دوسری طرف ڈالر کی قیمت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ چند دنوں میں ڈالر 152 روپے سے بڑھ کر 159 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس کے علاوہ نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ڈھائی روپے اضافہ کر دیا ہے، جس کا براہ راست اثر گاڑیوں کی قیمت پر آنے کی توقع ہے۔ اگر گاڑیاں بنانے والے کمپنیوں نے ان ایشوز کو اٹھا کر قیمتیں دوبارہ بڑھا دیں تو سرکار کیا کر سکے گی۔
ان معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا کام کسی بھی چیز کی قیمت کو بلا وجہ بڑھنے سے روکنا ہے۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک یہ ادارہ کام نہیں کر سکا ہے۔ ایک بھی چیز ایسی دکھائی نہیں دیتی جس کی قیمت ان کے ایکشن لینے سے کم ہو گئی ہو۔
کیا اب گاڑیاں دو ماہ کے اندر اندر ملنے لگیں گی؟
عرفان نے آٹو پالیسی کے ڈاکومنٹس میں پڑھا کہ پاکستان میں قانون ہے کہ مکمل ادائیگی کے دو ماہ کے اندر آٹو موبیل کمپنیاں کسٹمرز کو گاڑی ڈیلیور کرنے کی پابند ہیں۔
خلاف ورزی کرنے والی کمپنی کو کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ پلس دو فیصد سود بطور جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ نئی آٹو پالیسی میں یہ شرح بڑھا کر تین فیصد کر دی گئی ہے۔
عرفان یہ پڑھ کر مسکرا دیا۔ کئی سالوں کے تجربے کی بنیاد پر وہ جان چکا تھا کہ اس عمل سے گاڑیاں جلدی ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ کمپنیاں یہاں بھی ہوشیاری سے کام لیتی ہیں۔
وہ گاڑی کی قیمت کا تقریبا 20 فیصد بُکنگ کے وقت وصول کرتی ہیں۔ سات ماہ ڈیلیوری کا وقت دیتی ہیں اور چھٹے مہینے پوری رقم وصول کرتی ہیں۔ تا کہ دو ماہ کے قانون کی پاسداری بھی ہو جائے اور سات ماہ کے ڈیلیوری ٹائم کی قیمت بھی اون کی صورت میں حاصل کر لے۔
اون منی کاروبار دراصل آسان آمدن ہے۔ جس میں آپ اپنے دفتر اور گھر میں بیٹھے منافع کماتے ہیں۔ نہ آفس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ شو روم کے لیے علیحدہ جگہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے، نہ بجلی کے بل ادا کرنے ہوتے ہیں اور نہ ہی بیچنے کے لیے کسی سیلز سٹاف کو بھرتی کرنا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ دو ماہ تک ڈیلیوری کی پابندی پوری رقم لینے کے بعد ہے۔ عرفان سوچنے لگا کہ اگر حکومت صحیح معنوں میں اون منی کا کاروبار روکنا چاہتی ہے تو آٹو موبیل کمپنیوں پر ایڈوانس میں 20 فیصد رقم لے کر گاڑیاں بک کرنے پر پابندی لگانی چاہیے۔
جو گاڑی خریدنا چاہتا ہے وہ مکمل ادائیگی کے ساتھ گاڑی بُک کروائے اور کمپنی بکنگ کے ایک ماہ تک گاڑی دینے کی پابند ہو۔ خلاف ورزی کرنے والوں سے سٹیٹ بینک کے جاری کردہ شرح سود پر وصولی کر کے کسٹمرز کو دی جائے۔
جو کمپنیاں خلاف ورزی کو معمول بنا لیں ان کا لائسنس معطل کیا جائے۔
عرفان نے اگلے دن یہ ایشو 30 سال سے گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے ڈیلر شفیق رحمان سے ڈسکس کیا تو اس نے کہا کہ جو آٹو موبیل کمپنیاں سات ماہ ڈیلیوری کا وقت دینے پر یہ جواز پیش کریں کہ ان کے پاس کپیسٹی نہیں ہے ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جانے چاہییں۔
تین بڑی آٹو موبیل کمپنیاں تقریباً 50 برس سے پاکستان میں آپریٹ کر رہی ہیں۔ اگر اتنے وقت میں وہ اپنی کپیسٹی نہیں بڑھا سکیں تو انھیں کاروبار کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔
کپیسٹی نہ ہونا دراصل ایک بہانہ ہے جسے بنیاد بنا کر بلیک منی مافیا پیسہ کماتا ہے۔ اون منی کاروبار دراصل آسان آمدن ہے۔
جس میں آپ اپنے دفتر اور گھر میں بیٹھے منافع کماتے ہیں۔ نہ آفس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ شو روم کے لیے علیحدہ جگہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے، نہ بجلی کے بل ادا کرنے ہوتے ہیں اور نہ ہی بیچنے کے لیے کسی سیلز سٹاف کو بھرتی کرنا پڑتا ہے۔
یہ تمام سہولتیں آٹو موبیل کمپنیوں کے رجسٹرڈ ڈیلرز فراہم کرتے ہیں۔ وہ خود سارے راستے دکھاتے ہیں، خود ہی گاڑی رجسٹرد کرتے ہیں اور خود ہی بیچ دیتے ہیں۔
اون منی کا 30 فیصد آپ سے وصول کرتے ہیں اور آپ کا منافع سیدھا آپ کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حکامِ بالا اس سے مکمل طور پر بےخبر ہیں۔ اگر انہیں علم ہے مگر وہ پھر بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کرتے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کا معاملہ
عرفان نے جب الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے پالیسی پڑھی تو اسے پتہ چلا کہ نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی صرف ایک فیصد رکھی گئی ہے لیکن دوسری طرف مہنگی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمدات پر لاکھوں روپے کا ریلیف دیا گیا ہے جس کے پیچھے کوئی مضبوط دلیل دکھائی نہیں دیتی۔
امپورٹڈ الیکٹرک گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی 25 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دی گئی ہے۔ ان میں 70 کلو واٹ آور اور اس سے اوپر کی گاڑیاں بھی شامل ہیں، جن کی قیمتوں میں تقریباً 50 لاکھ روپے کمی واقع ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی خریدتا ہے تو وہ دو کروڑ بھی دے سکتا ہے۔ یہ لگژری آئٹم ہے جس کی قیمت کم کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
جہاں ایک گاڑی سے 50 لاکھ روپے کا ریلیف صرف ایک شخص کو دیا گیا ہے وہاں 25 مڈل کلاس لوگوں کو دو دو لاکھ روپے کا ریلیف دے کر فائدہ عام آدمی تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
شاید حکومت کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے کلچر کو فروغ ملے گا۔ بظاہر اس کے امکانات کم ہیں۔ کلچر اس وقت فروغ پاتا ہے جب کوئی سہولت اپر کلاس تک محدود نہ رہے بلکہ مڈل کلاس کے پاس سہولیات آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر حکومت صحیح معنوں میں الیکٹرک گاڑیوں کو پاکستان میں عام آدمی تک متعارف کروانا چاہتی ہے تو بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کو درآمدات پر مکمل ٹیکس چھوٹ دی جائے۔اس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ ملکی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا بل بھی کم ہو سکے گا۔
عرفان اس بات پر بھی حیران تھا کہ نئی آٹو پالیسی میں یہ ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ ڈالر 168 روپے سے کم ہو کر 152 روپے تک آیا تھا لیکن کسی کار کمپنی نے قیمتیں کم نہیں کی تھیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنیوں کو پابند کرے کہ میڈیا میں تمام رپورٹیں جاری کی جائیں جن کی بنیاد پر گاڑیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں کئی مرتبہ ڈالر اوپر گیا اور نیچے آیا ہے لیکن گاڑیوں کی قیمتیں ہمیشہ اوپر ہی چڑھی ہیں، گری نہیں۔ اس مرتبہ جو قیمتیں کم کی گئی ہیں وہ ٹیکس چھوٹ کی وجہ سے ہیں۔ ان میں ڈالر ریٹ کے کم ہونے کا اثر ابھی تک شامل نہیں کیا گیا۔
آٹو پالیسی مکمل پڑھنے، مارکیٹ کا جائزہ لینے اور ماہرین سے گفتگو کرنے کے بعد عرفان اس نتیجے پر پہنچا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی عارضی ہے۔
ڈالر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر چند ماہ میں گاڑیوں کی قیمتیں دوبارہ بڑھ سکتی ہیں اور ماضی کی طرح کسی میں اتنی ہمت نہیں ہو گی کہ وہ ان کمپنیوں سے پوچھ لے کہ کس اصول اور شرح سے قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔