دورہ ویسٹ انڈیز: پاکستان کے لیے مضبوط کمبینیشن بنانے کا آخری موقع

ویسٹ انڈیز کی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف کامیابیاں سمیٹ کر پاکستان کو زیر کرنے کے لیے بے تاب ہے۔

شاداب خان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نقصان دے رہا ہے، اگر حسن علی فیل ہوجائیں تو بولنگ بہت کمزور ہوجاتی ہے (آئی سی سی)

پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے ناکام دورے کے بعد ویسٹ انڈیز پہنچ چکی ہے جہاں وہ میزبان ٹیم کے خلاف چار ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔

اس سیریز میں بنیادی طور پر پانچ میچ ہونا تھے لیکن آسٹریلیا کا دورہ بڑھ جانے کے باعث ویسٹ انڈیز بورڈ نے ایک میچ کم کر دیا۔

پاکستان اپنا پہلا میچ اب 28 جولائی کو بارباڈوس میں کھیلے گی جبکہ دوسرا میچ 31 جولائی کو ہوگا، باقی دو میچ گیانا میں ہوں گے۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف تازہ تازہ کامیابیاں سمیٹ کر نئے حریف کے لیے تیار بیٹھی ہے اور نئے شکار کو زیر کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ 

نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو 1-4 سے شکست دے کر سیریز جیتی ہے اور ایک روزہ میچوں کی سیریز بھی 1-1 سے تاحال برابر ہے۔ اب وہ آخری میچ میں بھی جیت کی آس لگائے ہوئے ہیں۔

اس لیے کیریبئن ٹیم نہ صرف میدان میں بہت مشکل حریف ثابت ہوگی بلکہ نفسیاتی اعتبار سے بھی اس کو پاکستان کی موجودہ ٹیم پر برتری حاصل ہوگی جس کی بیٹنگ لائن اوپنرز کے بعد ختم ہوجاتی ہے اور بولنگ وقت پڑنے پر زنگ آلود ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔

فیلڈنگ کا حال بھی کسی نو آموز سے کم نہیں جو کیچ کرنے کے لیے بعض اوقات ایک دوسرے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں اب تین ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور پاکستان کو اپنا سکواڈ فائنل کرنے کے لیے یہ سیریز آخری موقع ہے۔

پاکستان کے موجودہ ہیڈ کوچ اور اُس وقت چیف سلیکٹر کا عہدہ رکھنے والے مصباح الحق نے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دورے سے قبل کہا تھا کہ اس دورے پر ہم اپنی بینچ کی قوت کو آزمائیں گے تاکہ ایک متبادل صف تیار رہے۔

تاہم رینکنگ بہتر بنانے اور جیت کی خبریں ٹوئٹ کرنے کی خاطر کمزور سی فوج زمبابوے کے سامنے اپنا بھاری توپ خانہ جھونک دیا گیا جس سے متبادل کھلاڑی تو تیار نہ ہوسکے البتہ ایک کمزور ترین ٹیم سے شکست نے ساری منیجمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔

کمزور حریفوں کے خلاف بلے بازوں کی رینکنگ تو بن گئی مگر انگلینڈ کے خلاف ان بلے بازوں کے سارے کس بل نکل گئے اور شکست نے جی بھر کے دامن نچوڑ دیا۔

پاکستان کے برخلاف انگلینڈ کے کپتان اوئن مورگن نے سیریز سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم اپنے نئے کھلاڑی آزمائیں گے اور انہوں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر نئے کھلاڑی آزمائے جبکہ پاکستان اپنے بہترین کھلاڑیوں کو کھلا کر بھی سیریز ہار گیا۔

انگلینڈ کو اس سیریز میں لیونگسٹن اور پارکنسن جیسے دو ستارے ملے جنہوں نے نہ صرف انگلینڈ کی کمر مضبوط کردی بلکہ پاکستان کے خلاف جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کے برعکس پاکستان آخری میچ تک یہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ کس کو کھلانا ہے کس کو بٹھانا ہے۔

اگرچہ پاکستان کے پاس ویسٹ انڈیز سے سیریز کے بعد انگلینڈ کے خلاف ایک اور موقع ہوگا جہاں وہ دو ٹی ٹوئنٹی میچ کراچی میں طے کر چکا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے شیڈول کے اعلان کے بعد یہ سیریز کھٹائی میں پڑتی نظر آرہی ہے۔

کرونا کی صورتحال اور متحدہ عرب امارات کے سخت قوانین کے تحت شاید انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ سے قبل پاکستان نہ آئے۔ ویسٹ انڈیز بولنگ اور بیٹنگ میں آسٹریلیا کو لاجواب کرچکی ہے اس لیے پاکستان اس کے لیے سخت حریف نہیں ہوگا۔

ان کے اوپنرز لینڈل سمنز اور ایون لوئس بہت اچھی فارم میں ہیں جبکہ کرس گیل، آندرے رسل اور کیرن پولارڈ مڈل آرڈر میں طوفانی بجلی بن سکتے ہیں، تینوں کسی بھی بولنگ کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔

بولنگ میں ہائیڈن والش کی لیگ سپن بولنگ پاکستان کے لیے حقیقی خطرہ ہوگی کیونکہ پاکستان کے بلے باز جس طرح انگلش سپنرز عادل رشید اور پارکنسن سے گھبرا رہے تھے اس سے ان کی ذہنی کشمکش واضح ہے۔

آندرے رسل، براوو، کورٹل اور میک کائے کی فاسٹ بولنگ بھی آسان نہیں ہوگی۔

پاکستان ٹیم کیا سوچ رہی ہے؟

پاکستان ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں ویسٹ انڈیز سے بہتر ہے۔ دنیا کے دو بہترین بلے باز اس وقت پاکستان ٹیم میں ہیں۔ بیٹنگ کا بوجھ تو بابر اعظم اور محمد رضوان ہی اٹھائیں گے لیکن مڈل آرڈر اگر انگلینڈ کی طرح ناکام رہا تو دونوں کی محنت پانی میں مل سکتی ہے۔

صہیب مقصود کو بڑے زور و شور سے دوبارہ لایا گیا لیکن ابھی تک وہ کند ہی رہے ہیں۔ ان کی فیلڈنگ بوجھ بن رہی ہے۔

محمد حفیظ اور فخر زمان یکسر آؤٹ آف کلر ہیں۔ فخر کو زبردستی مڈل آرڈر میں کھلا کر ان کے اعتماد کو مجروح کیا جارہا ہے۔ اس بہتر تھا کہ محمد نواز کو موقع دیا جائے۔ فخر تیسرے درجے کے سپنر پارکنسن کے خلاف یوں جدوجہد کررہے تھے جیسے پہلی دفعہ بیٹ پکڑا ہو۔

 شاداب خان بولنگ میں تو بے کار ہیں لیکن بیٹنگ کے ذریعے کبھی کبھی چل جاتے ہیں اس لیے مڈل آرڈر تو یہی سنبھالیں گے۔ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کی کلاس برقرار رہے گی لیکن حارث رؤف وقت کے ساتھ کمزور ہو رہے ہیں، ورائٹی نہ ہونے کے باعث ان کی تیز رفتار بولنگ  ٹیم کے لیے بے کار ہے۔

پاکستان کو عثمان قادر کو بھرپور موقع دینا ہوگا کیونکہ وہ عرب امارات میں بہت مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، موجودہ دور کی کرکٹ میں ایک اچھے لیگ سپنر کو بہت اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے لیے سپنر کا قابل اعتماد ہونا بہت ضروری ہے۔

ورلڈکپ کی تیاری

پاکستان ٹیم منیجمنٹ تو اس بات سے مکمل انکاری ہے کہ ٹیم ابھی تک تشکیل کے مرحلے میں ہے۔ گذشتہ دنوں کوچ مصباح الحق نے صرف مڈل آرڈر کے لیے کچھ پریشانی دکھائی کہ وہ اس طرح پرفارم نہیں کررہا جیسے کرنا چاہیے  ورنہ باقی تمام شعبے درست جارہے ہیں۔

شاید مصباح آخری ایک روزہ میچ میں ایک بہت بڑے ہدف کا دفاع بھول گئے جب قومی ٹیم کی بولنگ انگلینڈ کے لوئر آرڈر کو بھی رنز بنانے سے نہ روک سکی۔

بولنگ میں ابھی بھی وہ دم خم نہیں جو دوسری ٹیم کے بلے بازوں کو پریشان کرسکے۔ شاداب پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نقصان دے رہا ہے جبکہ فاسٹ بولنگ بھی جزوی طور پر فعال ہے۔ اگر حسن فیل ہوجائیں تو بولنگ بہت کمزور ہوجاتی ہے۔

مڈل آرڈر کی ناکامی سے اوپننگ کی کارکردگی بھی ماند پڑجاتی ہے اگر دونوں اوپنرز وکٹ بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو پاور پلے کو استعمال کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں چل سکتی۔

پاکستان ٹیم کے لیے ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری موقع ہوگا کہ وہ اپنی بیٹنگ کو انگلینڈ کی طرح ترتیب دیں جس میں دونوں اوپنرز بہت زیادہ رسک لیتے ہیں لیکن پاور پلے میں بڑا سکور کرکے اننگز کو مضبوط کردیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اب ان اصولوں پر نہیں کھیلی جاسکتی کہ خراب گیند کا انتظار کیا جائے۔ موجودہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بلے باز کو پہلی گیند سے بیٹنگ وہاں سے شروع کرنا ہوتی ہے جہاں دوسرے فارمیٹ میں 10 اوورز کھیلنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔

انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت اور ویسٹ انڈیز نے اپنے اوپنرز کو جارحانہ بیٹنگ کی آزادی دے کر ٹیم کے مڈل آرڈر کو بھی مضبوط کیا ہے، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانی ہوگی جس کے لیے بابر کو اوپننگ فخر یا شرجیل خان کے حوالے کرنا ہوگی ورنہ پاکستان کی بیٹنگ اسی طرح ناکام ہوتی رہے گی کیونکہ بابر اوپننگ کرتے ہوئے مڈل آرڈر انداز میں کھیلتے ہیں جس سے ان کا گراف تو بڑھ جاتا ہے لیکن ٹیم کا گراف گر جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ