یوم شہدا پولیس: ’اچھا لگتا ہے جب کوئی ہمارے بچوں کو یاد کرتا ہے‘

خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک صوبے کے دو ہزار سے زائد پولیس افسران اور اہلکار جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔

اے ایس پی سلمان ایاز 2006 میں ایک 17 سالہ لڑکے کو بازیاب کراتے ہوئے گولیوں کی زد میں آگئے تھے (تصاویر  بشکریہ ایاز خان خاندان)

یہ جنوری 2006 کی ایک یخ بستہ رات تھی،  اے ایس پی سلمان ایاز کوہالہ خرد کے علاقے میں ایک بچے کی بازیابی کے لیے پہنچے جہاں انہوں نے صف اول میں رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کیا، لیکن  بندوق کی ایک گولی ان کے سینے میں پیوست ہوگئی۔

2006 میں جس وقت سلمان ایاز  راولپنڈی صدر  بیرونی میں ایس ڈی پی او کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، ایک 17 سالہ لڑکے کے اغوا برائے تاوان کیس میں اطلاع ملتے ہی آفیسر سلمان نے رضاکارانہ طور  پر حصہ لیتے ہوئےرات کے دس بجے چکری روڈ پر کوہالہ خرد علاقے میں واقع ایک عمارت پر چھاپہ مارا۔

نتیجتاً، اغواکاروں کی جانب سےکافی مزاحمت کے بعد 17 سالہ لڑکے کو بحفاظت بازیاب کرایا گیا، تاہم اسی دوران ایک مقام پر سلمان ایاز  جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تن تنہا عمارت کے اندر گئے، جہاں پہلے سے گھات لگائے ایک اغواکار  نے سلمان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔

سلمان ایازکی موت نہ صرف ان کے خاندان کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا بلکہ محکمہ پولیس بھی آج تک ان کی مثالیں دیتا آرہا ہے۔

ان کی بہادری اور خدمات پر  انہیں ستارہ شجاعت سے نوازا گیا اور راولپنڈی میں پولیس لائنز کو اے ایس پی سلمان شہید کے نام سے منسوب کیا گیا۔

ہر سال  یوم شہدا پر ضلع صوابی میں ان کے آبائی گاؤں بوقو میں  پولیس کی جانب سے انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

ان کے والد محمد ایاز خان نے اے ایس پی سلمان کے حوالے سے خصوصی گفتگو میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بیٹے میں ٹیم کی قیادت کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔

’چاہے فوج ہو یا پولیس،ایک افسر کو  صف اول میں رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ سلمان نے جتنے بھی چھاپے مارے سب میں اس نے فالو  می کا کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اباد پولیس آفیسرز اکیڈیمی میں دوران تربیت قیادت کے موضوع پر سلمان کی مثال دی جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ  سلمان کو زیادہ قدر ومنزلت اسی وجہ سے مل رہی ہے کہ وہ مقابلہ کرتے ہوئے اور صف اول میں رہتے ہوئے ’شہید‘ ہوا۔

ایاز خان نے اپنے بیٹے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پشتو  کا ایک شعر دہراتے ہوئے کہا:

پہ جہان د ننگیالی دی دا دوہ کارہ

یا بہ اوخری ککرئی یا بہ کامران شی

یعنی  ایک دلیر شخص دو ہی باتوں کو  مقدم جانتا ہے۔ یا تو اپنی جان سے گزر جائے گا یا کامران ہوکر لوٹے گا۔

بیٹے سے جڑی یادوں کے حوالے سے ان کا کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک انتہائی پیار کرنے والا انسان تھا۔ مجھے اپنا رول ماڈل سمجھتا تھا۔ وہ اکثر میرے شانہ بشانہ میرے ساتھ رہتا۔ وہ میرا فخر تھا۔ بیچلرز کرنے کے بعد وہ آسٹریلیا پڑھنے گیا لیکن وہیں اس نے سی ایس ایس کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور  اس کے لیے واپس پاکستان آگیا۔‘

ایاز خان نے بتایا کہ سلمان ایاز نے مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے لیے انتھک محنت کی تھی،جس کے نتیجے میں 2002 میں سلمان نے 30 کامن سے نمایاں کامیابی حاصل کی۔

’میری پوسٹنگ کی وجہ سے اس نے مختلف علاقوں کے معیاری و غیر معیاری سکولوں سے پڑھا لیکن اصل تعلیم اس کو اپنے گھر سے ملی۔ سی ایس ایس کی تیاری میں اس کو  میری رہنمائی حاصل تھی اور  میں اکثر  اس کی لکھے مضامین کو  سرخ لکیروں سے بھر دیتا تھا۔‘

ایاز خان بات جاری رکھتے ہوئے ہنس دیے اور کہا:  ’سلمان رونے لگ جاتا تھا اور کہتا تھا کہ بابا میں نے اتنی محنت کی اور  آپ نے سب سرخ لکیریں کھینچ دیں۔ میں کہتا، بیٹا، اسی طرح سے سیکھو گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اپنی گہری نیلی آنکھوں، دراز قد اور  انفیکشس مسکراہٹ کی وجہ سے نوجوانی میں جب وہ کراچی میں تھا تو کئی ایک ماڈلنگ کی آفرز  آئیں لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کی منزل وہ نہیں۔‘

سلمان آیاز کے والد کے مطابق، سلمان گھڑ سواری، نشانہ بازی کا ماہر تھا اور  اس کو  جیوگرافی اور  تاریخ کے مطالعے سے بھی اچھا خاصا شغف تھا۔

’جیوگرافی میں اس کی معلومات حیران کن تھی۔ باوجود ہر طرح کے سکولوں میں پڑھنے کے اس کی پشتو، اردو، انگریزی تو  اچھی تھی ہی بلکہ اس کو  فرانسیسی پر بھی کافی حد تک عبور حاصل تھا۔ خدا نے اس کی عمر کم لکھی تھی شاید اسی لیے وہ کم وقت میں بہت کچھ کر گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایاز  خان آج بھی وہی گھڑی پہنے ہوئے ہیں جو ان کے بیٹے اے ایس پی سلمان آیاز  نے مرتے وقت پہن رکھی تھی، جس کے شیشے پر گولی لگتے وقت واضح نشان بھی آئے۔ اسی طرح ، ان کی ‘پوژو’ گاڑی آج بھی گھر کے پورچ میں بطور یادگار کھڑی ہے ۔

ایاز خان نے انٹرویو کے اختتام پر کہا کہ ’میرے بیٹے سے بھی کئی خوبصورت، نڈر، انٹیلیکچول جائنٹس  دہشت گردی کی جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم شہدا کو کچھ عرصے تک تو یاد رکھتے ہیں لیکن بعد میں انہیں اور ان کے والدین کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں اچھا لگتا ہے جب کوئی ہمیں اور ہمارے بچوں کو یاد رکھتا ہے۔‘

واضح رہے کہ ہر  سال چار  اگست کو  پاکستان میں  یوم شہدا منایا جاتا ہے اور اس موقع پر پولیس فورس کے مارے جانے والے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق دہشت گردی کی جنگ میں اب تک اس صوبے کے دو  ہزار سے زائد پولیس افسران اور سپاہی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان