تفتان: درآمدی راستے بازارچہ کی بندش تاجروں کا معاشی نقصان

اس بازار میں 50 سے 70 کلیئرنگ ایجنٹس کام کرتے تھے جبکہ قلیوں کی تعداد چار سے چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقے تفتان میں قائم کاروباری مرکز بازارچہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے 29 جولائی سے بند کردیا گیا ہے(تصویر : مقامی تاجر شوکت عیسیٰ زئی)

 

صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقے تفتان میں قائم کاروباری مرکز بازارچہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے چند روز قبل بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے سینکڑوں قلی بیروزگار اور چھوٹے تاجر معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔

’اس دروازے کے اس پار چند ہفتے قبل روزانہ چہل پہل رہتی تھی۔ ایران سے کنٹینر آتے تھے اور یہاں پر موجود بیوپاری سامان خرید کر اسے اتار کر چھوٹے تاجروں کو فروخت کرتے تھے۔ یہاں سے سینکڑوں قلیوں کا روزگار بھی وابستہ تھا۔‘

تفتان کے رہائشی مہربان نے بتایا کہ ان کی زندگی خوشگوار انداز میں گزر رہی تھی۔ وہ روزانہ تفتان کی سرحد پر بازارچہ میں آکر سامان اتارنے اور دوسری گاڑیوں پر لوڈ کرنے کا کام کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا: ’اس کام سے اتنے پیسے مل جاتے تھے، روزانہ کا خرچہ نکل جاتا تھا اور گھر کا چولہا بہتر انداز میں چلتا تھا لیکن 29 جولائی نے ہماری زندگی کا پہیہ ایک دم جام کردیا ہے۔ اب ہم پریشان ہیں کہ گھر کیسے چلائیں اور بچوں کو کیا کھلائیں۔‘

یہ صرف مہربان نہیں بلکہ چار ہزار سے زیادہ قلیوں کی کہانی ہے جن کا روزگار تفتان کی سرحد پر ایران سے آنے والے سامان کے مرکز بازارچہ سے منسلک ہے۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقے تفتان میں قائم کاروباری مرکز بازارچہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے 29 جولائی سے بند کردیا گیا ہے اور اس کے دوروازے پر ایک نوٹس لگادیا گیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ کے حکم سے جاری کیے گئے نوٹس میں درج ہے کہ ’تمام امپورٹرز/ کلیئرنگ ایجنٹس کو بذریعہ نوٹس ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ کل سے بازارچہ میں کسی قسم کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ نہیں ہوگی۔‘

اس فیصلے نے کاروبار کرنے والے چھوٹے تاجروں کو پریشان کردیا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔

تفتان کے رہائشی مقامی تاجر اور کلیئرنگ ایجنٹ شوکت عیسیٰ زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تفتان سرحد پر دو سرحدی پوائںٹس ہیں جہاں ایران سے تجارتی سامان لایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک گیٹ بازارچہ اور دوسرا این ایل سی (نیشنل لاجسٹک سیل) گیٹ کہلاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بازارچہ میں ایران سے آنے والی اشیا میں سیمنٹ، ٹائلز، کرینکر اور فریش آئٹمز شامل تھے۔

ان سب کی ترسیل اسی راستے سے ہوتی تھی اور اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا منافع کم ہونے کے باعث اشیا جلدی فروخت ہوجاتی تھیں۔

شوکت کے مطابق: ’اگر کسی گاڑی میں ایران سے سامان بازارچہ منگوایا جائے تو ایک ٹرالر کا کرایہ پاکستانی 50 ہزار روپے دیتے تھے۔ یہ سامان یہاں سے 24 گھنٹے کے اندر کلیئر ہوکر روانہ کردیا جاتا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے متبادل کے طور پر سامان کو این ایل سی کے گیٹ سے داخل کرکے کلیئر کرنا ہوگا جہاں سے ایک گاڑی کو کلیئر کرنے میں ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو وقت زیادہ لگتا ہے اور دوسرا ایک گاڑی کا کرایہ ڈھائی لاکھ روپے تک ادا کرنا پڑے گا۔‘

اس بازار میں 50 سے 70 کلیئرنگ ایجنٹس کام کرتے تھے جبکہ قلیوں کی تعداد چار سے چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

مقامی تاجر شوکت نے بتایا کہ بازارچہ سے کاروبار کی مد میں کسٹم حکام کو ایک سے دو کروڑ ٹیکس کی مد میں مل رہے تھے جس کی بندش سے تفتان میں 40 سے 60 فیصد کاروبار کم ہوگیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی سامان پنجگور، گوادر اور ماشکیل بھی جاتا تھا۔ یہ سب سامان کسٹم سے کلیئر ہوکر قانونی طور پر پورے صوبے میں تقسیم ہوتا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے افغانستان اور ایران سے متصل بلوچستان کی سرحد پر باڑ بھی لگادی ہے جس سے سرحد سے سمگلنگ کا کاروبار بھی کم ہوگیا ہے جو سرحدی علاقوں میں روزگار کا واحد ذریعہ تھا۔

شوکت کہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں چھوٹے تاجروں کا کام متاثر ہوا ہے وہیں یہاں کام کرنے والے قلی بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ان میں سے کچھ این ایل سی جاسکتے ہیں، لیکن سب کو روزگار ملنا مشکل ہے۔

واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں، انجمن تاجران اور کلیئرنگ ایجنٹس کے نمائندوں نے تفتان میں گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تفتان سرحد پر واقع تجارتی پوائنٹس یکے بعد دیگرے بند کیے جارہے ہیں۔

راہداری گیٹ گذشتہ سال فروری سے بند ہے۔ امیگریشن گیٹ سے پاکستانی شہریوں کی ایران داخلے پر پابندی عائد ہے اور زیرو پوائنٹ گیٹ بھی گذشتہ چار ماہ سے بند ہے جس سے چھوٹے تاجر اور مزدور روزگار کے لیے محتاج ہوگئے ہیں اور اب بازارچہ کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امان اللہ محمد حسنی، حاجی شوکت علی عیسی زئی، جے یو آئی کے رہنما سردار عبد الرحیم خلجی اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’بازارچہ کی بندش سے زیادہ متاثر چھوٹے تاجر ہوں گے جو صرف ایک ٹرالر مال خرید سکتے ہیں۔ جو تاجر ہفتے میں ایک ٹرالر خرید کر مارکیٹ میں بیچ سکتے تھے اب ایک ہفتے کی بجائے ایک ماہ میں وہ ایک ٹرالر کی ہی خریداری کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بازارچہ کو بند کرنا تفتان کے لوگوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ اس وقت تفتان بارڈر پر تمام راستے بند ہوگئے ہیں اور بازارچہ کی بندش سے رخشان ڈویژن سمیت بلوچستان بھر میں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، لہذا وفاقی حکومت کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

رہنماؤں نے کہا کہ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کی گئی تو احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور احتجاجی مظاہرے اور شہر میں شٹرڈاؤن ہڑتال بھی کی جائے گی۔

ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے بلوچستان کے کسٹم حکام کو کہا گیا کہ اب ایران سے جو بھی سامان آئے گا وہ این ایل سی ٹرمینل تفتان سے کلیئر ہوگا، اس کے علاوہ کہیں اور سے کوئی سامان منتقل نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب بازارچہ کی بندش کے حوالے سے تفتان کے تاجروں نے ڈپٹی کمشنر چاغی کو خط بھی لکھا ہے، جس میں بازار کی بندش سے تاجروں اور قلیوں کی بڑی تعداد میں بے روزگار ہونے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔

تاجروں نے ڈی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے حکام بالا سے رابطہ کریں اور تاجروں کے تحفظات دور کرکے بازار کو کھولنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے سرحدی علاقے تفتان میں گذشتہ سال زائرین کی آمد کے باعث کرونا پھیلنے سے بھی کاروبار کو طویل عرصے تک بند رکھا گیا تھا۔

تفتان اور ملحقہ علاقوں میں کوئی فیکٹری یا زراعت نہیں ہے اور لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے وابستہ ہے، جن سے ان کا گزربسر ہوتا ہے۔

سرحدی اضلاع میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ تاجروں اور سیاسی رہنماؤں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت لوگوں کے روزگار کے لیے متبادل ذرائع بھی فراہم کرے تاکہ یہاں پر بے روزگاری کی شرح کم ہوسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت