ڈائناسورز کے خاتمے کا باعث بننے والے سیارچے کا ماخذ دریافت

چھ میل چوڑا سیارچہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا جس نے 18 کروڑ سالوں سے زمین پر بسنے والے ڈائناسور کے دور کا خاتمہ کر دیا تھا۔

چھ میل چوڑا سیارچہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا جس نے 18 کروڑ سالوں سے زمین پر بسنے والے ڈائناسور کے دور کا خاتمہ کر دیا تھا  (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ماہرین فلکیات نے اس سیارچے کا ماخذ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس نے ڈائناسور کا صفایا کردیا تھا۔

چھ میل چوڑا سیارچہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا جس نے 18 کروڑ سالوں سے زمین پر بسنے والے ڈائناسور کے دور کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس فلکیاتی واقعے کو Chicxulub کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ موجودہ میکسیکو میں جزیرہ نما یوکیٹن پر گرا تھا جہاں اس سے گہرا گڑھا بن گیا تھا۔

سائنسدانوں نے قدیم چٹان کی باقیات کا زمین پر موجود اور ڈرل کور کے اندر موجود نمونوں کے ذریعے جائزہ لیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ ملبہ کاربونیسیس کونڈرائٹ کلاس ’الکا‘ (شہابی چٹان) سے آیا ہے جو کہ پورے نظام شمسی کا سب سے قدیم مادہ ہے۔

یہ الکا اس سے قبل زمین پر گرنے والے تمام ایسے مواد کے تقریباً تین فیصد پر مشتمل ہے لیکن ان کو غلط نام دیے گئے تھے جب کہ اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کاربن سے مالا مال تھے لیکن یہ صرف دو فیصد کاربن پر مشتمل ہیں۔

یہ مادہ عام طور پر ایک میل لمبے سیارچے تشکیل دیتے ہیں، جو زمین کے قریب پہنچتے ہیں لیکن آج کوئی بھی سیارچہ اس حجم کے قریب بھی نہیں ہے جو زمین پر Chicxulub جیسے اثرات پیدا کر سکتا ہو۔

اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ولیم بوٹکے نے کہا: ’ان سیارچوں کے موجود نہ ہونے کی وضاحت کے لیے ماضی کے کئی گروپس نے اندرونی نظام شمسی میں بڑے سیارچوں اور دمدار ستاروں کے ٹوٹنے کی نقالی کی ہے، جس میں سب سے بڑے سیارچے کے Chicxulub جیسے گڑھے سے زمین پر اس کے بڑھتے ہوئے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’اگرچہ ان میں سے بہت سے ماڈلز میں دلچسپ خصوصیات بیان کی گئی تھیں لیکن کسی نے بھی سیارچوں اور دمدار ستاروں کے بارے میں ہماری معلومات کے مطابق ہمیں مطمئن نہیں کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم ابھی بھی کسی اہم چیز کے بارے میں لاعلم ہیں۔‘

انہوں نے جو دریافت کیا وہ مریخ اور مشتری کے درمیان واقع مرکزی سیارچوں کے بیلٹ سے نکلنے والا ملبہ تھا اور خاص طور پر چھ میل سے زیادہ قطر والا ملبہ جو ہر 25 کروڑ سال میں ایک بار زمین سے ٹکڑاتا ہے۔ یہ ماضی میں سائنسدانوں کی جانب سے اندازہ لگائی گئی تعداد سے دس گنا زیادہ ہے۔

سائنسدان کہتے ہیں کہ تھرمل قوتوں کا مطلب ہے کہ یہ اشیا متحرک ’ایسکیپ ہیچز‘ میں بہتی جا سکتی ہیں جہاں سیاروں کی کشش ثقل کا زور ان کو زمین کے قریب مدار تک دھکیل سکتی ہے۔

محققین نے 130،000 ماڈل سیارچوں کی نگرانی کے لیے ناسا کے پلیئڈس سپر کمپیوٹر کا استعمال کر کے لاکھوں سالوں کے دوران ان کی پیش رفت کو ٹریک کیا۔

تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر سیمون مارچی نے کہا: ’یہ نتیجہ نہ صرف اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ سیارچوں کے بیلٹ کے بیرونی نصف حصے میں اثر انداز ہونے والے کاربونیسس کونڈرائٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ٹیم کی جانب سے پہلی بار سمولیشن کے ذریعے بڑے سیارچوں کے مدار کو زمین کے قریب پہنچنے کے اثرات کو دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’اس Chicxulub Impactor کے ماخذ کے بارے میں ہماری وضاحت خوبصورتی سے فٹ بیٹھتی ہے، جس کے بارے میں ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ یہ  سیارچے کیسے ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق