سکول بس جتنا سیارچہ زمین کے انتہائی قریب سے گزرنے والا ہے

امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ 24 ستمبر کو یہ سیارچہ، جسے 2020 ایس ڈبلیو کا نام دیا گیا ہے، زمین کی سطح  سے محض 13 ہزار میل کی بلندی سے گزرے گا۔

ناسا کے مطابق زمین کے قریب سے گزرنے والے سیارچے کا حجم ایک سکول بس جتنا ہو سکتا ہے (NASA/JPL-Caltech)

بس کے حجم کا ایک سیارچہ چند گھنٹوں بعد کرہ ارض کے انتہائی قریب سے گزرے گا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ 24 ستمبر کو یہ سیارچہ، جسے 2020 ایس ڈبلیو کا نام دیا گیا ہے، زمین کی سطح سے محض 13 ہزار میل کی بلندی سے گزرے گا۔

یہ سیارچہ کرہ ارض کے گرد مدار میں موجود مصنوعی سیاروں، پاور جی پی ایس اور حتیٰ کہ ٹیلی ویژن سیٹلائیٹس سے بھی زیادہ قریب سے زمین کے اوپر سے گزرے گا۔

اس سیارچے کے بارے میں معلومات محض چند روز قبل یعنی 18 ستمبر کو ایریزونا میں ناسا کی مالی اعانت سے چلنے والے ایک پروجیکٹ کے ذریعے ملی تھیں اور مزید مشاہدات کے بعد اس کے راستے کا کھوج لگایا گیا تھا۔

سائنس دان یہ پتہ کرنے میں بھی کامیاب رہے کہ سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

اس تحقیق سے یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ یہ جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق دوپہر کو زمین سے قریب ترین فاصلے سے گزرے گا۔

زمین کے قریب سے گزرنے کے بعد یہ نظام شمسی میں اپنا سفر جاری رکھے گا۔ اس سیارچے کا 2041 تک ہماری زمین کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں اور اس وقت یہ کرہ ارض سے مزید زیادہ فاصلے پر ہوگا۔

امریکی خلائی ایجنسی نے بتایا کہ یہ سیارچہ تقریباً پانچ سے دس میٹر چوڑا ہو سکتا ہے یعنی اس کا حجم تقریباً ایک چھوٹی سکول بس جتنا ہے۔

ناسا نے بتایا کہ سائز کا اندازہ اس کی چمک سے کیا گیا ہے۔

اس کے زمین سے ٹکرانے کا امکان نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ آتشی گولے کی طرح فضا میں ہی پھٹ جائے گا جیسے ٹوٹتے ہوئے دم دار ستارے کبھی کبھی زمین سے دکھائی دیتے ہیں۔

اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کو ایسے سیارچوں سے خطرہ لاحق ہے تاہم یہ عام طور پر ہمارے سیارے کے قریب سے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور کبھی بھی زمین پر آباد انسانوں کے لیے بڑا خطرہ نہیں بنے۔

ناسا کے سی این ای او ایس کے ڈائریکٹر پال چوڈاس کا کہنا ہے کہ ’اس جیسے چھوٹے چھوٹے سیارچوں کی ایک بڑی تعداد خلا میں موجود ہے اور ان میں سے کئی ہر سال ہمارے سیارے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’در حقیقت اس حجم کے سیارچے ہمارے ماحول کو ہر سال اوسطاً ایک یا دو بار متاثر کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین کا ماننا ہے کہ سیارچے ہمارے لیے زیادہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں اور ناسا سمیت خلائی اداروں نے ’سیاروں سے دفاع‘ کا کام انجام دیا ہے جس کا مقصد کسی سیارچے کو تلاش کرنے اور کسی بھی خطرے کا سبب بننے والے اجسام فلکی سے نمٹنے کے امکانات کو بہتر بنانا ہے۔

ناسا کو زمین کے قریب 90 فیصد ایسے سیارچوں کو تلاش کرنے کا کام سونپا گیا ہے جو 140 میٹر یا اس سے بھی بڑے ہوں اور یہ سیارچے ’2020 ایس ڈبلیو‘ سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے بڑے حجم کا مطلب ہے کہ وہ فضا سے گزرتے ہوئے زمین سے ٹکرانے کے بعد ممکنہ طور پر ہمارے لیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔

تاہم ان کے بڑے حجم کی وجہ سے انہیں تلاش کرنا آسان ہے۔’2020 ایس ڈبلیو‘ جیسے سیارچے بہت زیادہ چھوٹے ہیں لیکن ان کے چھوٹے حجم اور کم چمک سے ان کو دیکھنے میں مشکل ہوجاتی ہے۔ وہ اس وقت دکھائی پڑتے ہیں جب تک کہ وہ قریب نہ آجائیں۔

پال نے کہا: ’ناسا کے سیارچوں کے سروے اور ان کی کھوج کرنے کی صلاحیتوں میں مسلسل بہتری آرہی ہے اور اب ہم اپنے سیارے کے قریب آنے والے اس حجم جتنے سیارچوں کو چند دن قبل تک تلاش کر پائیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس