افغانستان: امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، صدر بائیڈن کا طالبان کو انتباہ

انہوں نے طالبان کو خبردار کیا کہ کوئی بھی کارروائی جو ’امریکی اہلکاروں یا ہمارے مشن کو خطرے میں ڈالتی ہے اس کا فوری اور مضبوط امریکی فوجی جواب دیا جائے گا۔‘

12 اگست کو یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب صدر بائیڈن امریکا کے بارے میں اپنے منصوبے  کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے  (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن نے ہفتے کو طالبان کی تیزی سے پیش رفت کے باوجود افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے اپنے فیصلے کا اعادہ کیا ہے لیکن شہریوں کو نکالنے کے لیے مزید فوج بھیجنے کا وعدہ بھی کیا ہے اور عسکریت پسندوں کو خبردار کیا کہ وہ اس مشن کے بارے میں دھمکیاں نہ دیں۔

اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ مشاورت کے بعد صدر بائیڈن نے کہا کہ مجموعی طور پر ’تقریبا پانچ ہزار‘ امریکی فوجی جو کہ پچھلے اعلان کے مطابق تین ہزار تھے اب انخلا کو منظم کرنے اور وہاں 20 سال بعد امریکی مشن کے خاتمے میں مدد کریں گے۔

انہوں نے طالبان کو خبردار کیا کہ کوئی بھی کارروائی جو ’امریکی اہلکاروں یا ہمارے مشن کو خطرے میں ڈالتی ہے اس کا فوری اور مضبوط امریکی فوجی جواب دیا جائے گا۔‘

بائیڈن کا یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب طالبان جنگجوؤں نے مرکزی شمالی شہر مزار شریف پر قبضہ کر لیا ہے اور دارالحکومت کابل کی طرف تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے ہفتے کے روز وعدہ کیا کہ ’لوگوں پر مسلط کردہ جنگ کو مزید ہلاکتوں کا سبب نہیں بننے دیں گے‘ اور کہا کہ جنگ کو ختم کرنے میں مدد کے لیے مشاورت ہو رہی ہے تاہم اس کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ہفتے کے روز اشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات کی جو اس سے قبل جو بائیڈن سے ملاقات کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔

اُدھر افغان طالبان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طالبان کی پیش قدمی اور مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضوں کے تناظر میں چند نکات جاری کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا ہے کہ جتنی تیزی سے افغان طالبان میں مختلف علاقوں پر قبضہ کیا ہے اس سے ان کی معبولیت واضح ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں لوگوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

طالبان نے قومی خزانے، عوامی سہولیات، سرکاری دفاتر اور پارک، سڑکیں وغیرہ کی دیکھ بھال کرنے کا بھی دعوی کیا ہے۔

امریکا اور افغان حکومت کی مدد کرنے والوں کے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔

طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ معمول کی زندگی گزاریں انہیں ملک چھور کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

افغان طالبان نے افغان حکومت کے حالیہ بیانات کو اپنے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔

اس بیان میں پروسی ممالک کو بھی مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ طالبان ان کے لیے کسی قسم کی کوئی مشکل پیدا نہیں کریں گے۔ سفارت خانوں، سفرا، فلاحی اداروں کو بھی طالبان نے تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔


تین ہزار امریکی مرینز سفارت خانے کے عملے کو نکالنے کابل میں داخل

امریکی مرینز کا ایک تازہ دستہ ہفتہ کو 3 ہزار فوجیوں کی ایک فورس کے طور پر کابل پہنچا ہے جس کا مقصد امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں اور افغان اتحادیوں کو وہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعے محفوظ انداز میں نکالنا ہے۔

یہ تازہ دستہ اس وقت افغانستان پہنچا ہے جب طالبان باغی دارالحکومت کے نواح میں پہنچ چکے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق آخری مراحل میں امریکی اہلکاروں کو کابل بھیجے جانے سے ظاہر ہوتا ہے وہاں سکیورٹی کی صورتحال کتنی خراب ہے۔

اس تناظر میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا صدر بائیڈن افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اپنی ہی تجویز کردہ آخری تاریخ یعنی 31 اگست تک مکمل کر پائیں گے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن ولیم اربن کا کہناہے کہ ’جمعے کے روز پہنچنے والا امریکی مرینز کا تازہ دستہ ہفتے کو کابل کے ہوائی اڈے پہنچا ہے۔‘

امریکی حکام نے زور دیا ہے کہ کابل پہنچنے والے تازہ دستے کا مقصد صرف امریکی سفارت خانے کے عملے اور افغان اتحادیوں کو وہاں سے نکالنا ہے اور ان سے توقع ہے کہ وہ یہ کام رواں کے ماہ آخر تک مکمل کر لیں گے۔

اے پی کے مطابق وہ وہاں اس سے زیادہ عرصے بھی رک سکتے ہیں اگر سفارت خانے کو طالبان کے قبضے کا خطرہ لاحق ہوا۔

افغان حکام کے مطابق ہفتے کو طالبان نے مزید دو صوبوں پر قبضہ کر لیا ہے اور  وہ کابل کے مضافات تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے وہ شمالی شہر پر مختلف النوع قسم کے حملے کر رہے ہیں جسکا سابق جنگجو دفاع کر رہے ہیں۔


افغان صدر اشرف غنی نے ہفتے کو کہا ہے کہ ملک کی مسلح افواج کو فعال کرنا ان کی ’اولین ترجیح‘ ہے۔

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب طالبان افغان فورسز کو پے در پے شکست دے کر متعدد صوبائی درالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے بعد اب کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ 

صدر غنی نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا: ’موجودہ صورت حال میں ہماری سیکورٹی اور دفاعی افواج کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
توقعات کے برعکس انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ استعفیٰ دیں گے یا موجودہ صورتحال کی ذمہ داری قبول کریں گے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔
افغان صدر نے کہا کہ ’ایک تاریخی مشن کے طور پر میں عوام پر مسلط کردہ جنگ کو مزید ہلاکتوں کا سبب نہیں بننے دوں گا۔
 

 

’لہذا میں نے حکومت کے اندر عمائدین، سیاسی رہنماؤں، عوام کے نمائندوں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ایک معقول اور بامقصد سیاسی حل کے حصول کے لیے وسیع مشاورت کا آغاز کیا ہے تاکہ افغانستان کے لوگوں کو امن اور استحکام نصیب ہو سکے۔‘
ملک کے دوسرے اور تیسرے سب سے بڑے شہروں کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد کابل سرکاری افواج کے لیے آخری گڑھ بن گیا ہے جب کہ انہوں نے ملک میں کہیں بھی طالبان کا جم کر مقابلہ کرنے یا مزاحمت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
تاہم صدر غنی نے قومی افواج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کا بہادری سے دفاع اور مضبوط عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔

صدر اشرف غنی کی مقامی رہنماؤں اور عالمی شراکت داروں سے ہنگامی بات چیت

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ہفتے کو ایک ایسے وقت پر مقامی رہنماؤں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ہنگامی بات چیت کی ہے جب طالبان باغیوں نے کابل کے قریب پہنچتے ہوئے دارالحکومت کے جنوب میں ایک قصبے پر قبضہ کر لیا جو شہر کے داخلی راستوں میں سے ایک ہے۔

ادھر امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے سفارت خانے خالی کرنے میں مدد کے لیے فوجیوں کو پہنچا دیا ہے۔

طالبان ان دنوں انتہائی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے شہر در شہر قبضے میں لے رہے ہیں۔

اس جارحیت کے سبب بہت سے افغان شہری جانیں بچا کر کابل کا رخ کر رہے ہیں۔


افغان فورسز کا ’مزاحمت نہ کرنے‘ پر افسوس ہے: امریکہ

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے طالبان کی پیش قدمی کے جواب میں افغان افواج کی جانب سے ’مزاحمت نہ کرنے‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں طالبان کی اس طرح تیز رفتاری سے کارروائیوں پر شدید تشویش ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جان کربی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں طالبان کے مقابلے میں مزاحمت نہ کیے جانے پر بھی تشویش ہے۔ ہم اس پر ایمانداری سے بات کر رہے ہیں۔‘

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے جذبے کو دیکھنا چاہتے ہیں جو اس کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں اس کی امید ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے۔‘

پینٹاگون ترجمان کے مطابق ’طالبان نے تیز رفتاری سے کارروائی کی ہے اور ان کے مقابلے میں سامنے آنے والے مزاحمت کافی نہیں ہے جو کہ انہیں روک سکے۔‘


البان خواتین پر ’خوفناک‘ پابندیاں عائد کر رہے ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے زیر قبضہ آنے والے علاقوں میں خواتین پر ’خوفناک‘ پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا جمعے کو کہنا تھا کہ ’حال ہی میں طالبان کے زیر قبضہ آنے والے علاقوں میں خواتین پر خوفناک پابندیوں کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔‘

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا ’میں ان اطلاعات سے بہت پریشان ہوں کہ طالبان اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انسانی حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں جن میں خواتین اور صحافیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بہت دل گرفتہ اور پریشان کن ہے کہ افغانستان خواتین کے مشکل سے حاصل کردہ حقوق کو یوں پامال کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے تنبیہ کی کہ ’عام شہریوں کے خلاف براہ راست حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ بین الااقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔‘

 
طالبان کی جانب سے افغانستان کے مزید شہروں پر قبضے اور کابل کے قریب آنے سے دوبارہ سے ایک ایسی حکومت کے قائم ہونے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں جس میں جابرانہ قوانین رائج تھے۔

افغان سکیورٹی فورسز نے کئی محاذوں پر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ایسے واقعات میں انفرادی فوجیوں سے لے کر فوجی یونٹس حتی کے پوری ڈویژنز بھی شامل ہیں۔ جس کے بعد طالبان کو مزید فوجی ساز و سامان اور گاڑیاں دستیاب ہو چکی ہیں جو پیش قدمی میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔


عملہ ’حساس مواد‘ تلف کر دے: امریکی سفارت خانہ

کابل میں واقع امریکی سفارت خانے نے اپنے عملے کو حکم دیا ہے کہ وہ ’حساس مواد‘ کو تلف کر دے۔ یہ حکم طالبان کی تیزی سے کی جانے والی پیش قدمی کی باعث دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جاری کیے جانے والے ایک میمورنڈم کے مطابق عملے کو کہا گیا کہ وہ سفارت خانے یا دوسرے مقامات پر موجود اہم آلات اور دستاویزات کو تلف کر دیں۔

میمو میں کہا گیا کہ ’تلف کیے جانے والے مواد میں ایسی اشیا کی شمولیت یقینی بنائیں جن پر سفارت خانے یا ایجنسی کا کوئی لوگو، امریکی جھنڈا یا ایسی اشیا ہوں جن کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو۔‘

علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کابل میں موجود سفارت خانے میں عملے کی تعداد کو کم کیا جا رہا ہے۔

تاہم امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ کابل کو کسی ’فوری خطرے‘ کا سامنا نہیں ہے۔


امریکی میرینز سفارتی عملے کو نکالنے کے لیے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے

ایک جانب جہاں طالبان کی جانب سے مزید شہروں پر قبضہ کیا جا رہا ہے وہیں قندھار پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکی میرینز سفارتی عملے کو افغانستان سے نکالنے کے لیے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچ چکے ہیں۔ 

جمعے کو طالبان نے کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ کابل کے مزید قریب پہچ چکے ہیں۔

دریں اثنا امریکہ نے روزانہ کی بنیاد پر کابل سے ہزاروں افراد کو نکالنے کی تیاریاں شروع کر دیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے طالبان جمعے کو کابل سے صرف 30 میل دور موجود صوبے لوگر کے دارالحکومت پل عالم پر قابض ہو چکے ہیں۔

پل عالم کے شہری خیرالدین لوگری کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہم نہیں جانتے کیا ہو رہا ہے۔‘

یاد رہے جمعے کو برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس نے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے صدر بائیڈن کے حکم کے بعد جلدی میں کیا جانے والے انخلا ’ایک غلطی‘ تھی۔

ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ ’افغانستان کو اکیلا نہیں چھوڑے‘ گا لیکن انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ غیر ملکی طاقتوں کے پاس افغانستان کے تنازعے کے حل کے لیے محدود طاقت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا