ہم نے کرونا سے مشکلات میں آگے بڑھنا سیکھا: سعودی وزیر ثقافت

سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان آل سعود کے مطابق سعودی عرب اپنی روشن خیال قیادت کی حکمت عملی اور وژن کی بدولت کرونا سے درپیش ثقافتی چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

’سب سے اہم سبق جو ہم نے اس وبا سے سیکھا ہے وہ یہ کہ مشکل حالات میں آگے کیسے بڑھا جائے اور نئے راستے کیسے نکالے جائیں۔‘(فائل فوٹو: عرب نیوز)

 2020 کی پہلی سہ ماہی میں کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد دنیا بھر کے بہت سے اہم شعبوں کو متاثر کرنے والی کساد بازاری کے ساتھ ، ثقافتی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں سے ایک تھا۔ 

عالمی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اپریل 2020 میں وبائی امراض کے آغاز پر ، 89 فیصد ممالک میں دنیا کی ہیریٹیج سائٹسں جزوی یا مکمل طور پر بند ہوگئیں ، اور تہواروں اور تقریبات سے متعلق ثقافتی سرگرمیوں کی دیگر اقسام کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔

وبا ایسا ڈراؤنا خواب تھا کہ  دنیا بھر میں ثقافتی شعوں کو توقعات سے زیادہ نقصان ہوا۔

سعودی عرب میں بھی باقی دنیا کی طرح ثقافتی نظام کی ترقی کے حکومتی منصوبوں میں خلل ڈالا۔ سعودی وزارت ثقافت نے مارچ 2019 میں اپنے وژن اور سٹریٹجک رجحانات کا اعلان کیا تھا۔ ملک کے پہلے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان آل سعود نے تصدیق کی ہے کہ ’کرونا وائرس کے چیلنج سے دنیا کے تمام حصوں میں ثقافتی و تخلیقی سرگرمیوں کو بہت نقصان ہوا ہے تاہم سعودی عرب اپنی روشن خیال قیادت کی حکمت اور وژن کی بدولت چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ عربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ ’ثقافتی شعبوں میں کوویڈ 19 کی وجہ سے کئی تقریبات معطل ہوئیں، تہوار منسوخ ہوئے، عجائب گھر بند رہے، تھیٹر اور سینما گھر بند ہوئے، تاہم، کرونا نے دنیا بھر کے ثقافتی اداروں کو ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے طریقے تلاش کرنے سے نہیں روکا ۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے اہم سبق جو ہم نے اس وبا سے سیکھا ہے وہ یہ کہ مشکل حالات میں آگے کیسے بڑھا جائے اور نئے راستے کیسے نکالے جائیں۔‘

کرونا کے دوران سعودی وزارت ثقافت کے تحت ایک مقابلہ ہوا جس کا نام ’خلوت میں ادب‘ تھا، نیز ایک اور ادبی مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں ڈارمہ لکھنے کا مقابلہ کروایا گیا۔

2،087 ادب سے محبت کرنے والے افراد نے اس مقابلہ میں شریک ہو کے کتب بینی کی جب کہ 443 افراد نے ڈرامہ نویسی میں حصہ لیا۔

محکمہ ثقافت کا ایک اور قدم نیشنل میوزیم کے ورچوئل ٹور کا اجرا تھا۔

شہزادہ بدر بن فرحان کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں یہ کوششیں ہمارے ملک کے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں بے مثال تھیں نیز یہ سب کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کا ایک پرعزم اظہار تھا۔

ساٹھ کی دہائی کے بعد گذشتہ مارچ ریاض میں لائٹ آرٹ کے بہترین بین الاقوامی ماسٹر ورکس ’نور الاریاض‘ کا مظاہرہ کیا گیا جو بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ شہزادہ بدر کے مطابق سعودی عرب یقیناً بین الاقوامی معیار کا ایک اعلیٰ لائٹ شو منعقد کر پایا جو عوام کے لیے دلچسپی کا باعث تھا۔

احتیاطی تدابیر سمیت وبائی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ریاض شہر میں کھلے اور متنوع مقامات پر یہ شو فنکارانہ سرگرمیوں کی ایک عمدہ مثال پیش کرنے میں کامیاب رہا۔

اگست کے آغاز میں سعودی عرب نے سیاحتی ویزا رکھنے والوں کے ملک میں داخلے کی معطلی کو ختم کرنے کے بعد سیاحوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے جو سعودی عرب کی آمدنی کے ذرائع کو متنوع بنانے کے منصوبوں پر عمل درآمد کے ساتھ آگے بڑھنے کے ارادے کا واضح اشارہ تھا۔ 

وزیر ثقافت، جو فنڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سربراہی کرتے ہیں اور جسے گذشتہ برس چھ جنوری کو وزرا کونسل نے منظور کیا تھا،بتاتے ہیں کہ ’یہ فنڈ قومی ثقافتی حکمت عملی کے بڑے تعاون کاروں میں سے ایک ہے اور مملکت کے ترقیاتی اہداف کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ بورڈ سعودی عرب کے 16 ثقافتی شعبوں کی حمایت پر توجہ مرکوز کرے گا ، جن کی شناخت ثقافت کے لیے قومی حکمت عملی میں کی گئی تھی۔ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے ثقافتی شعبے کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف مواد کی تخلیق، تعلیم اور تربیت، بنیادی ڈھانچے کی فراہمی، ثقافتی پیداوار کے فروغ  سمیت ثقافتی شعبے میں ڈیجیٹل تبدیلی کو فعال بنائے گا۔‘

چیئرمین کے مطابق ، فنڈ مختلف ثقافتی شعبوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے کردار کو فعال کرنے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے نجی اور غیر منافع بخش سرکاری شعبے میں کئی اداروں کے ساتھ مؤثر اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ملکی معیشت اور عوامی مفاد کے لیے ثقافتی شعبے اور اس کے ماہرین پر مثبت اثرات مختلف ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والے نجی اداروں ، انجمنوں اور این جی اوز کی مدد سے یہ فنڈ سعودی ثقافت کو فروغ دینے اور معاشی ترقی کے مواقع پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا جو ملکی ثقافتی منظرنامے کی ترقی کا باعث بنے گا۔

وزارت ثقافت کے اقدامات پر کوویڈ 19 وبائی امراض کے اثرات کے بارے میں شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان آل سعود نے کہا کہ اس کا اثر ایسے واقعات تک محدود ہے جو زیادہ تعداد میں سامعین کو راغب کرتے ہیں جیسے ثقافتی تہوار ، بحیرہ احمر میلہ اور قومی آرکسٹرا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریاض بین الاقوامی کتاب میلہ اور الجنادریہ فیسٹیول وبائی امراض سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی عوامی تقریبات میں شامل ہیں کیونکہ انہیں رواں سال کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

شہزادہ بدر کا کہنا ہے کہ ’لٹریچر ، پبلشنگ اینڈ ٹرانسلیشن کمیشن میلے کی تنظیم نو کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ سعودی ثقافتی منظرنامے کی حالیہ پیش رفت قومی ثقافت کی حکمت عملی کے اہداف کے مطابق ہو سکے۔‘

جہاں تک الجنادریہ فیسٹیول کا شیڈول ہونا باقی ہے، وزیر ثقافت نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی وزارت نے ’اس میلے کے لیے ایک سٹریٹجک پلان تیار کیا ہے کیونکہ یہ سب سے اہم اور بڑے ثقافتی پروگراموں میں شمار ہوتا ہے۔

شہزادہ بدر ثقافتی تقریبات کی کم اسپانسر شپ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، جو پچھلی دہائیوں میں وزارت اطلاعات (سابقہ ​​ثقافت اور انفارمیشن) کے ذریعے فنڈ کیا جاتا تھا۔

شہزادہ بدر بن فرحان کہتے ہیں کہ ’وزارت ، جو کہ حال ہی میں قائم کی گئی ہے ، اور پوری مملکت میں مختلف ثقافتی شعبوں کو ترقی دینے کے بڑے مشن پر ہے، کے لیے دانشمندانہ قیادت نے ایک بجٹ مختص کیا ہے۔ یہ بجٹ یقیناً سبسڈی دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک پائیدار ثقافتی ماحولیاتی نظام تیار کرنا ہے جو ثقافتی منظرنامے کے لیے مسلسل کام کرتا رہے۔ یہ کفالت کے معنی میں نہیں لیا جانا چاہیے بلکہ ثقافتی شعبے کو بااختیار بنانے اور پائیداری کے لیے ہے، اور اس میں فرق ہے۔ ہمارا بنیادی کردار اس شعبے کی تعمیر ہے تاکہ یہ ثقافتی ادارے انفرادی طور پر اپنے ذیلی شعبوں کی حکمت عملی کے ذریعے ہمارے اہم اہداف کو حاصل کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا