انڈونیشیا کا یوٹیوبر گاؤں

سیسونتو نے خراب انجن کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنے طور پر آسان ویڈیوز بنانے کا فصلہ کیا اور اپنے اور اپنی حاملہ بیوی کے فون سے کسی تعطل کے بغیر ویڈیوز بنانی شروع کر دیں۔

سیسونتو انڈونیشیا کے ایک غریب مکینک تھے۔ یہاں تک کہ ان کی ویڈیوز نے ان کے ہمسایوں کو سٹارز بنا دیا جبکہ غریب کاشتکاروں پر مشتمل برداری کو ملک کے’یوٹیوب گاؤں‘میں بدل ڈالا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غریب سے امیر بننے کے قصے کا آغاز چار سال پہلے ہوا جب سیسوتنو نے جزیرہ جاوا پر واقع دور دراز کے گاؤں کسگرن میں اپنی آٹو ورکشاپ کو چلانے کے لیے تگ ودو کر رہے تھے۔ انڈونیشیا کے زیادہ تر لوگوں کے لیے نقشے پر ان کے گاؤں کو تلاش کرنا مشکل تھا۔

سیسونتو کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ اپنے بڑھتے ہوئے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اضافی آمدن کے لیے بے چین تھے۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے کباڑ سے کار آمد اشیا تلاش کرنا اور سویابین کی کاشتکاری کافی نہیں تھی۔ سیسونتو نے انڈونیشیا کے ایک انفلوئنسر کے بارے میں ٹیلی ویژن شو دیکھا جنہوں نے آن لائن ویڈیوز پوسٹ کر کے پیسہ بنایا تھا۔ شو دیکھنے کے بعد بالآخر انہوں نے یوٹیوب پر مختصر اور مزاحیہ ویڈیوز اپ لوڈ کرنی شروع کر دیں۔

انڈونیشیا کے بہت سارے شہریوں کی طرح ایک لفظ پر مشتمل نام والے 38 سالہ سیسونتو کے بقول: ’کوئی ان ویڈیو کو نہیں دیکھتا تھا اس لیے میں نے انہیں اپ لوڈ کرنا بند کر دیا۔‘

انہوں نے طے کرلیا کہ وہ یوٹیوب سے پیسہ نہیں کما سکتے لیکن ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے ایک گاہک کی قیمتی موٹرسائیکل ٹھیک کی کوشش میں مصروف تھے کہ انہوں نے مدد کے لیے آن لائن ویڈیوز دیکھنی شروع کر دیں۔ سیسونتو کہتے ہیں کہ مکینک ہو کر بھی انہیں یہ ویڈیوز سمجھ میں نہیں آئیں کیونکہ وہ بہت پیچیدہ تھیں۔

امید کا چراغ بجھنے کے بعد سیسونتو نے خراب انجن کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنے طور پر آسان ویڈیوز بنانے کا فصلہ کیا اور اپنے اور اپنی حاملہ بیوی کے فون سے کسی تعطل کے بغیر ویڈیوز بنانی شروع کر دیں۔

اپنی شروع کی ویڈیو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ’میں کانپ رہا تھا اور میرے منہ سے بے ربط جملے نکل رہے تھے۔‘ لیکن دو سال بعد ہی یوٹیوب پر سیسونتو کے سبسکرائبرز کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

اب وہ ویڈیو ایڈٹ کرنے والی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ بہت مصروف رہتے ہیں۔ وہ بائیکس ٹھیک کرنے اور ایک مقامی دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے جانے کی ویڈیوز بناتے ہیں۔ اپنے بڑھتے ہوئے’کاروبار‘ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ اپنے خاندان کے لیے مقامی کرنسی میں ماہانہ 15 کروڑ روپیہ (10 ہزار ڈالر) تک کما سکتے ہیں۔ ان کی آمدن کا یہ ذریعہ گاؤں میں زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہا۔

افواہیں پھیل گئیں کہ پیسے اکٹھے کرنے میں کامیابی حاصل کرنے والے میکینک سیسونتو کالے جادو سے مدد لینے میں مصروف ہیں۔ کچھ والدین نے اپنے بچوں کو ان کی ورکشاپ پر جانے سے روک دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ ان کی کالے جادو کے لیے قربانی دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیسونتو کے مطابق: ’گاؤں کی نشست گاہ میں ایک اجلاس ہوا جہاں میں نے وضاحت کی کہ میرے کاروبار کا نام یوٹیوب ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔‘

سیسونتو نے اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے مفت اسباق کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب کسگرن نامی گاؤں میں کم از کم دوسرے 30 دوسرے افراد نے اپنے یوٹیوب چینل شروع کر دیے ہیں جن میں سے بعض کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

گاؤں کی برداری کے سربراہ سیف الدین کہتے ہیں کہ’پورے علاقے میں کسگرن سب سے زیادہ غریب گاؤں تھا لیکن اب ہم دوسرے دیہات کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس میں نوجوانوں کے لیے بڑی ترغیب ہے۔ اب انہوں نے اپنے موبائل فون کو بےکار کاموں کے لیے استعمال کرنا بند کر دیا ہے۔ وہ ان سے پیسہ بنا سکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا