’میں جاہل آدمی ہوں اور کبھی کبھی تھپڑ بھی ماردیتا ہوں‘

بلوچستان میں قوم پرست سیاست کے چار ستون مانے جاتے ہیں۔ جن میں میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل شامل ہیں۔

ان کا دور حکومت یکم مئی 1972 سے 13 فروری 1973 تک رہا۔ جسے آج بھی ایک مثالی دور کہا جاتا ہے (سردار اختر مینگل/ فیس بک)

بلوچستان کی سیاست کے چار بڑے ناموں میں شامل آخری فرد اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار عطا اللہ مینگل انتقال کر گئے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے ترجمان نے ایک ویڈیو پیغام میں سردار عطا اللہ مینگل کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے عظیم قائد، سرپرست اعلیٰ، بلوچستان کے تاریخ ساز قوم پرست رہنما اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔‘

ترجمان کے مطابق عطا اللہ مینگل کے جسد خاکی کو کراچی سے ان کے آبائی علاقے وڈھ لے جایا گیا ہے جہاں ان کی آخری رسومات جعمے کو ادا کی جائیں گی۔ 

بلوچستان میں قوم پرست سیاست کے چار ستون مانے جاتے ہیں۔ جن میں میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل شامل ہیں۔

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبوں کی تشکیل کے بعد بلوچستان میں سب سے پہلے منتخب ہونےوالے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطااللہ مینگل بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں 1929 میں پیدا ہوئے۔

عطا اللہ مینگل کون ہیں؟

انہوں نے ابتدائی تعلیم وہاں سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے ایچی سن کالج لاہور چلے گئے۔

ان کا دور حکومت یکم مئی 1972 سے 13 فروری 1973 تک رہا۔ جسے آج بھی ایک مثالی دور کہا جاتا ہے۔

جامعہ بلوچستان کے پروفیسر منظور بلوچ جو سرکاری ملازمت سے قبل صحافت کرتے تھے اور انہوں نے بلوچستان کے تمام بڑے سیاست دانوں سے ملاقات اور انٹرویوز بھی کیے۔ 

ان سے ہم نے سردار عطااللہ مینگل کی شخصیت اور ان کے دور حکومت کے حوالےسے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سردار عطااللہ ایک جاذب نظر شخصیت اور انتہائی صاف اردو بولنے والے سیاست دان تھے۔

منظور بلوچ نے بتایا کہ ان کا دور حکومت تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن لوگوں اور اپنے بڑوں سے سنا کہ ان کے جیسا حکومت کرنے والا پھر نہیں آیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا جیسا ذہین سیاست دان اور کمال کا مقرر میں نہیں دیکھا۔ منظور بلوچ کے بقول: ان کی خطابت کا اندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی نے بھی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش میں بھی ان جیسا مقرر بن سکتا۔

منظور سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کو بلوچ بنانے میں سردارعطااللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی ،نواب خیر بخش مری نے سب سے اہم کردار ادا کیا اور انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ اس سرزمین کے مالک ہیں۔

سردار عطااللہ مینگل جب وزیراعلیٰ بنے تو ان کا دور حکومت طویل نہیں رہا بلکہ یہ صرف آٹھ مہینوں پر محیط تھا۔ منظور بلوچ کہتے ہیں کہ ان کے دور کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ انتظامی امور چلانا ایک فن ہے۔ جن میں ان کو مہارت حاصل تھی۔

منظور نے بتایا کہ ان کے حوالے سے بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کے مادری زبانوں کے برعکس اردو کو سرکاری زبان قراردیا اور بلوچستان سے پنجابی باشندوں کو نکالا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ میرے ذہن میں بھی بہت سے سوالات تھے۔ جن کا جواب لینا تھا یہ موقع مجھے 2014 میں ملا جب میں نےان سےملاقات کی اوران کا انٹرویو کیا تھا۔

منظور کے بقول: میں نے ملاقات کے دوران یہ سوالات سامنے رکھے کہ ان میں کتنی صداقت ہے۔ جس پر سردار عطااللہ مینگل نے کہا کہ اردو کو میں نے اس وجہ  سے سرکاری زبان قرار دیا کہ ہماری مادری زبانوں میں اتنا مواد نہیں جو اس کےمعیار پر پورا اتر سکے۔ ’اگر میں انگریزی کو بناتا تو ہمارے ایم پی ایز جو انگریزی نہیں سمجھتے تو ان کو یہ بیوروکریسی آسانی سے بے وقوف بنا سکتی تھی۔‘

منظور بلوچ نے بتایا کہ میں نے پنجابی باشندوں کو نکالنے کے حوالے سے جب پوچھا تو سردار عطااللہ نے بتایا کہ ’جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوگیا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر نے ایک کوشش کہ یہاں پرحکومت کو ناکام بنایا جائے۔‘

سردار نے بتایا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب نے مطالبہ کیا کہ ان کے لوگوں کو واپس بھیجا جائے تاکہ یہاں پر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کمزور ہو جائے۔‘

عطااللہ مینگل کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں نے پولیس کے لیے بڑی دعوت کی اور اس دوران میں نے ان سے کہا کہ میں آپ لوگوں کو پہلے سے زیادہ مراعات اور تنخواہ دوں گا۔ آپ لوگ پنجاب میں جاکر خوار ہو جاؤ گے اس لیے آپ یہی رہیں۔‘

سابق وزیراعلیٰ نے منظوربلوچ کو بتایا کہ میں نے کسی کو بھی نہیں نکالا ان کو پنجاب نے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد واپس طلب کیا تھا۔ جس کا پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہیں میں نے نکالا۔

منظور بلوچ نے کہا کہ سردار عطااللہ مینگل نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر سول سیکرٹریٹ میں تبدیلی لانے کا خواہاں تھے اور ایک مسئلے پر انہوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چیف سیکرٹری کوبرطرف کردیا۔

سردارعطااللہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب اس کو فارغ کیا اور اس کے جانے کے لیےایک ٹرک منگوایا تو چیف سیکرٹری ان کے پاس آئے اور کہا کہ ان کے جانے کے لیے ٹرک مناسب نہیں کوئی اور بندوبست کیا جائے۔ جس پر سردار عطا اللہ مینگل نے کہا کہ ’میں جاہل آدمی ہوں رولز آف بزنس نہیں جانتا بس آپ چلے جائیں۔‘

چیف سیکرٹری کچھ دیر کے بعد دوبارہ سردار کے پاس آئےاور کہا کہ میں دل کا مریض ہوں ٹرک میں جاتے ہوئے مجھے تکلیف ہوگی جس پر سردار نے اسے کہا کہ ’میں جاہل آدمی ہوں اور کبھی کبھی تھپڑ بھی ماردیتا ہوں۔‘ جس کے بعد وہ چلے گئے۔

منظور بلوچ کہتے ہیں کہ سردار عطااللہ نے جس طرح حکومت کی وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہ ہوسکی اور ان کی حکومت کا آٹھ مہینے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ انہیں مشرف کے دور میں صدر بننے کی بھی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تین نامور شخصیات جن میں سردار عطااللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری شامل ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ تینوں ہم عصر بھی ہیں۔ جو بہت کم جگہوں پر ہمیں ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ مزید کہتے ہیں کہ سردار عطااللہ مینگل کے حوالے سے دوسری اہم چیز یہ تھی کہ ان کا جواں سال بیٹا لاپتہ کیا گیا جو بلوچستان کا پہلا لاپتہ فرد تھا۔ جس کی لاش یا قبر کےحوالے سے آج تک انہیں نہیں بتایا گیا۔

منظور کے مطابق: بلوچستان کی سیاست میں تین بڑے نشان جن کو مشرف بھی کہتا تھا کہ بلوچستان میں مسئلہ صرف تین سرداروں مری، بگٹی اور مینگل کا ہے باقی تمام اس کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سردار عطااللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی اورنواب خیربخش مری تینوں ہم عصر تھے اور ان تینوں کے جوان بیٹے مارے گئے۔ ایسی مماثلت اور ہم عصری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

منظور کہتے ہیں کہ جب ہم کبھی سردارعطااللہ کی پریس کانفرنس یا جلسے میں تقریر کو کور کرتے تو ہمیں یہ آسانی رہتی کہ وہ جو بولتے وہ ربط کےساتھ انتہائی صاف اردو میں بات کرتے جس کے لیے کسی صحافی کو ان کی تقریر دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہم من و عن ہی اخبار میں چھپنے کے لیے دے دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھٹو کی حکومت ختم ہوئی اور ضیاالحق کا مارشل لا لگا تو اس وقت سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے جلاوطنی اختیار کی۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کی غیر موجودگی میں بلوچستان میں ایسے لوگ حکومت میں شامل ہوئے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

اس پر سردار عطااللہ نے  کہا کہ ’اس وقت صورتحال ایسی ہوگئی کہ اگرمیں اور نواب خیر بخش مری جلاوطنی اختیار نہ کرتے تو ضیاالحق شاید ہمیں پھانسی پر چڑھادیتا۔‘

سردار عطااللہ مینگل نے اپنی طویل جلاوطنی ختم کرکے 1995 میں بلوچستان واپس آئےاور انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جس کی قیادت اس وقت ان کے فرزند سردار اختر مینگل کررہے ہیں۔

منظور کہتے ہیں کہ میں نے سردارعطااللہ مینگل سے پاک چائنا اکنامک کوریڈور( سی پیک ) کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک عالمی منصوبہ ہے اور بلوچ کی اتنی طاقت نہیں کہ اس کو روک سکے۔ ان کے مطابق سی پیک سے بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں اور یہ امریکہ، چین کے مسئلہ ہےاگر امریکہ نے چاہا تو یہ منصوبہ کامیاب ہوگا ورنہ یہ پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچے گا۔

 تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں کے سیاست کے بڑے ستون جن میں سردار عظااللہ مینگل بھی شامل ہیں۔ ان کےحوالےسے کوئی تحقیق اور کتابیں موجود نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست