بچے کو آپ نے سب کچھ سکھا دیا، شکار کرنا سکھایا؟

جانور اپنے بچوں کو سب سے پہلے خود کھانا شکارنے کے قابل کرتے ہیں اور ہمارے بچے تیس سال کے ہو کر بھی صرف ہضم کرنا جانتے ہیں، کیوں بھئی؟ کیا کھانے سے بڑھ کر کوئی تین وقتی (یا دو وقتی) مجبوری ہے جو بندے کے ساتھ جڑی ہو؟

سیانے کہتے تھے بندے کے ہاتھ میں ہنر ہو تو بھوکا نہیں مرتا (تصویر: پکسابے)

میں جب بھی آٹا گوندھتا ہوں سائیں اللہ بشک قیصرانی کو بہت دعائیں دیتا ہوں۔

جاتی سردیاں تھیں، مسلسل بارشوں کا موسم تھا اور سخت اوازاری تھی جب اسلام آباد شفٹ ہوا۔ شروع کے دو تین دن اپنے پچھلے باس کے ہوسٹل میں رُل کُھل کے گزارے، پھر ایک دن عثمان بھائی سے ملنے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ بندوبست ہوا کچھ رہائش کا؟ بتایا کوشش جاری ہے۔ کہنے لگے یہیں آ جائیں۔

یہیں سے مراد ایک ایسا فلیٹ تھا کہ جس میں تین کمرے تھے، ایک لاؤنج تھا اور ہر دیوار کے ساتھ کتابیں ہی کتابیں چنی ہوئی تھیں۔ یہ عثمان قاضی کی پرسنل لائبریری تھی اور اس کے مجاور اس وقت اللہ بشک تھے۔ عرض کیا کہ مرشد ادھر سائیں پہلے سے رہتے ہیں، انہیں ڈسٹربنس ہوگی، پھر مہمان آتے جاتے ہیں آپ کے، تو کمرے سارے ملے جائیں گے، کیسے ہو گا؟

’اللہ بشک ایک دو مہینے بعد جا رہے ہیں، ان کا ٹرانسفر ہو گیا ہے، آپ آئیے اور ان کی گدی سنبھال لیجیے۔‘ اندھے کو دو آنکھیں والا محاورہ بھی اس وقت میری کیفیت پہ اتنا فٹ نہیں بیٹھتا ہوگا۔ آدھ پون گھنٹہ مزید گپ شپ ہوئی اور بھائی ظفر اللہ خان کے ساتھ واپس آ گیا۔

اگلے روز نوکری کے بعد سامان گاڑی میں لادا اور فلیٹ پہنچ گیا۔ مختصر چیزیں تھیں، سیٹ کرکے بیٹھا تو اللہ بشک صاحب نے کھانے کے لیے کہا۔ ان کی طرف آیا تو کمرے میں بہترین گھر کی بنی ہوئی روٹی اور سالن، ساتھ دہی، سبحان اللہ، موج لگ گئی! مزے سے کھایا اور سو گیا۔

اب روٹین یہ بنی کہ میں باہر جاتا تو واپسی پہ افغانی روٹی لے آتا، جب موڈ ہوتا وہ کھا پی لیتے ورنہ روٹی بناتے۔ ان کا اصول تھا کہ کھانا ساتھ اگر کھانا ہے تو مہمان بنائے یا نہ بنائے، کچن میں کھڑا ضرور ہو تاکہ گپ شپ چلتی رہے۔ سالن وغیرہ کے تو وہ ایکسپرٹ تھے لیکن روٹی الگ ہی زندہ باد قسم کی بناتے۔ چند دنوں میں انہوں نے مجھے بھی سکھا دیا کہ روٹی کیسے بنتی ہے۔ اب ایک رولا تھا۔ ان کا گوندھا آٹا میں پھڑکا جاتا تھا اور پھر شرمندہ بھی ہوتا تھا۔

سائیں کے پاس کچن میں ایک دن کھڑا تھا کہ بولے آئیں، آٹا گوندھنا سیکھیں۔ کام شروع ہوا، دس منٹ کی گیم تھی یار، صرف دس منٹ! یہ گوندھا، وہ فریج میں رکھا، اُدھر برتن دھوئے، اِدھر تین دن کا سکون۔ پھر ان کا طریقہ ہے بڑا صاف ستھرا، نہ ہاتھ زیادہ آٹے میں خراب ہوئے، نہ روٹی بناتے ہوئے آٹا پھیلا، مطلب موج ہی موج۔

اللہ بشک اس کے دس بارہ دن بعد کوئٹہ چلے گئے اور تب سے اب تک ایک آدھ بار ہی چکر لگا ہے ان کا لیکن بھائی ہر تیسرے دن دعا دیتا ہے۔ سائیں نے زندگی کا سب سے بڑا گُر مجھے سکھا دیا، مرشد، مولا آباد رکھے آپ کو!

یقین کیجیے کہ انسان اگر اکیلا رہتا ہو تو سب سے بڑا مسئلہ کھانے کا ہوتا ہے۔ آپ کتنے مہینے باہر کا کھانا مسلسل کھا سکتے ہیں؟ افغانی روٹی مجھے پسند تھی، اب بھی ہے لیکن کب تک بھئی؟ تو سیکھنے کے بعد سے اب تک زندگی بڑے آرام میں ہے۔ سالن شالن بندہ تجربے کر کے سیکھ لیتا ہے آٹا گوندھنا پتہ نہیں کیوں زیادہ مرد نہیں سیکھ پاتے۔

سیانے کہتے تھے بندے کے ہاتھ میں ہنر ہو تو بھوکا نہیں مرتا، میں کہتا ہوں صرف آٹا گوندھنا سیکھ لیں تو آپ بھوکے نہیں مرتے! کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہر حال میں آدمی کے بچے کو سیکھنی چاہئیں۔ فرش کی صفائی، کپڑے دھونا، استری، جوتے پالش، سالن روٹی بنانا، برتن دھونا اور اپنے بال تراش سکنا۔

آپ جتنے مرضی پیسے والے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زندگی بڑی بار ایسے موقعے دکھاتی ہے جب آپ کو ان میں سے کسی کام کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کچھ عرصے کے لیے باہر ملک جائیں، کسی دوسرے شہر میں ایسی جگہ رہنا پڑے جہاں مارکیٹ پاس نہ ہو، ہوسٹل میں ہوں، چھٹیاں ہو جائیں، کرونا کا موسم ہو، ملازمین نہ آ سکتے ہوں، پہاڑوں میں رہنے کا موڈ ہو، مطلب سو جگہ آپ کو یہ سب بنیادی کام خود سے کرنے ہی پڑتے ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ جیسے میں نے سیکھا یا جیسے آپ نے اس وقت سیکھا کہ جب سر پہ پڑی، ہمارے بچے بھی یہ سب کچھ تبھی سیکھیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تعلیم پہ آپ زور دیتے ہیں، تربیت میں آپ کمی نہیں چھوڑتے لیکن شکار کا ٹائم آتا ہے تو انسان کے بچے کو پیسے بھر کے بازاری کھانا نگلنا پڑتا ہے؟ جانور اپنے بچوں کو سب سے پہلے خود کھانا شکارنے کے قابل کرتے ہیں اور ہمارے بچے تیس سال کے ہو کر بھی صرف ہضم کرنا جانتے ہیں، کیوں بھئی؟ کیا کھانے سے بڑھ کر کوئی تین وقتی (یا دو وقتی) مجبوری ہے جو بندے کے ساتھ جڑی ہو؟ سوچیں بھئی، ساری عمر ہاتھ سے بنا کر کھانے ہی نہ آئے آپ کے بچے کو، کون سی تربیت؟ کیا تعلیم؟ جب وہ کھانے کے لیے کسی دوسرے کا محتاج ہے؟

ایسا نہیں ہے کہ میں گھر سے سیکھ کے آیا تھا یا سائیں نے سکھا دیا تو اب تیس مار خان بن گیا لیکن جب جب روٹی بنا کے کھاؤں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ یار، اگر یہ کام نہ آتا ہوتا تو شاید شروع میں ہی واپس بھاگ جاتا۔

باقی چیزیں پھر وقت نے سکھا دیں۔ ایک شریف مہربان آدمی رہنے کے لیے آپ کو اپنی ذاتی لائبریری دے تو کیا آپ اسے گندا مندا رکھیں گے؟ اسلام آباد جیسے شہر میں اس قدر مہر کا جواب کچھ نہیں ہو سکتا سوائے یہ کہ بس اپنے جوگی کوشش جاری رکھی جائے اور جگہ صاف رہے۔

تو یہ میری آپ بیتی تھی۔ باہر ملک جانے والے کسی بھی جوان سے پوچھ کے دیکھ لیں، سب سے پہلا مسئلہ ’اپنا آپ‘ سنبھالنے کا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے بچوں کو سب کچھ سکھا دینے میں لیکن یہ سب کام لاڈ پیار کے چکر میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، جب سر پہ پڑتی ہے تو الٹے سیدھے تجربے سکھا دیتے ہیں  لیکن کیا یہ تربیت کا حصہ نہیں؟

اور ہاں، ادھر جان بوجھ کے میں نے لڑکے لڑکیوں میں فرق نہیں رکھا۔ بیٹیوں کو بھی اچھی عمر تک ان میں سے کئی کام نہیں آتے، نہ ضرورت سمجھی جاتی ہے، لیکن بہرحال یہ سب نہیں ہے تو سمجھیں آپ نے بچے کو سب کچھ سکھا دیا، شکار کرنا نہیں سکھایا!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ