صارفین: جو ظلم سہتے ہیں، بغاوت نہیں کرتے

بڑے بڑے جنرل سٹوروں سے لے کر فرنیچر کی دکانوں تک، اے سی کمپنیوں سے لے کر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں تک، ٹیلی کام کمپنیوں سے لے کر عام ٹائر شاپ تک صارفین کے حقوق کا خیال کرنے والا کوئی نہیں۔

ہم صارفین بازار سے خریداری کے بعد  دعا کرتے ہیں کہ  چیزمیں کوئی خرابی نہ ہو کیونکہ اس کو تبدیل  یا مرمت کرانے کے لیے  سو جتن کرنے پڑیں گے (اے ایف پی)

قصور تو ہمارا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن ڈرائنگ رومز یا دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے۔ ہم عملی قدم اٹھانے سے کتراتے ہیں۔  

لیکن شاید وہ عملی قدم اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ فون کر کے برا بھلا کہہ لو یا پھر کسی محفل میں بیٹھ کر انتظار کرو کہ اس موضوع کی جانب بات چیت کا رخ ہو جس پر ہم بھرے بیٹھے ہیں۔

ہم سب صارفین ہیں اور ہم سب کو اگر روزانہ نہیں تو ہر دوسرے یا تیسرے دن کسی ایسی چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ خون کھول جاتا ہے اور سوچتے ہیں کہ کوئی ہے اس ملک میں جو ان دکان داروں، کمپنیوں اور سیٹھوں کی جوابدہی کرے؟

ہم صارفین ہزاروں یا لاکھوں کی چیز خریدتے ہیں اور پھر دعا کرتے ہیں کہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو کیونکہ اس کو تبدیل یا کمپنی مرمت کرانے کے لیے سو جتن کرنے پڑیں گے۔

حال ہی میں ایک دوست نے اسلام آباد کے بلیو ایریا سے گاڑی کے نئے ٹائر خریدے۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ یہ ٹائر نئے نہیں تھے اور خراب ہو گئے۔

صاحب واپس دکان پر گئے، رسید دکھائی اور مطالبہ کیا کہ یا تو ٹائر نئے ڈال کر دو یا پھر پیسے واپس کرو۔

دکان دار صاحب تو ایسے بپھرے جیسے چار نئے ٹائر نہیں پوری دکان اپنے نام کرنے کا کہہ دیا ہو، تلخ کلامی کرنے لگے۔

دوست خاموشی سے آ گیا لیکن دو دن بعد اس دکان دار کو ایک قانونی نوٹس ملا جس میں وہی دو مطالبات درج تھے ورنہ کورٹ کچہری۔

نوٹس کے اگلے ہی روز دوست صاحب نئے ٹائروں کے ساتھ گاڑی اسلام آباد کی سڑکوں پر چلاتے دکھائی دیے۔

ایسا کرنے میں کیا مشکل ہے؟ اگر آپ کے پاس مفت کا وکیل ہو تو کوئی مشکل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نوبت تک بات پہنچے ہی کیوں؟

اب آپ ایئر کنڈیشنروں کو ہی لے لیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اشتہارات چلاتی ہیں اور طرح طرح کے ڈسکاؤنٹ کی آفر کرتی ہیں۔

آپ ڈیڑھ ٹن کا اے سی لیں اور اسی کمپنی کے لوگوں سے لگوائیں اور دو دن بعد اس میں خرابی نکل آئے تو کیا ہوتا ہے۔

کمپنیاں آپ کو کہیں گی کہ یہ خراب اے سی واپس نہیں ہو گا اور اس کے بدلے میں نیا اے سی نہیں دیا جائے گا بلکہ اسی اے سی کی مرمت کر دی جائے گی۔

ارے بھئی، میں نے تو لاکھ سوا لاکھ کا نیا اے سی لیا تھا اور آپ اگر اس کی مرمت کریں گے تو یہ دو روز کے اندر ہی نئے سے استعمال شدہ نہیں بلکہ نئے سے مرمت شدہ اے سی ہو جائے گا۔

کوئی ہے جو یہ بتا سکے کہ دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے؟

چلیں یہ تو بات ہے کہ ایک چیز خریدی اور خراب نکلی۔ اب آپ سروس انڈسٹری ہی کو دیکھ لیں۔ ہمارے ایک دوست ایک ٹیلی کام کمپنی کی انٹرنیٹ ڈیوائس استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے غلطی سے ری چارج کراتے وقت دو بار رقم جمع کرا دی۔ اب وہ کمپنی کو کہہ رہے ہیں کہ ان کی اضافی رقم واپس کی جائے تو کمپنی کہتی ہے کہ غلطی آپ سے ہوئی ہے۔

جی بالکل غلطی صارف سے ہوئی ہے اور اسی لیے وہ اپنی اضافی رقم واپس لوٹانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وہ بیچارہ اپنی غلطی کی تشہیر سوشل میڈیا پر کرنے لگا کہ شاید سوشل میڈیا کی طاقت سے اس ٹیلی کام کمپنی پر کچھ دباؤ پڑے اور وہ اس کی رقم واپس کر دے۔

کیا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے کبھی ان ٹیلی کام کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا؟ کبھی دیکھا کہ ان کی انٹرنیٹ ڈیوائسز کے صارفین کو چوبیس گھنٹوں میں سے کتنے گھنٹے انٹرنیٹ فراہم کیا گیا اور آیا انٹرنیٹ کی سپیڈ وہی دی جاتی رہی جس کا وعدہ کیا گیا اور جو صارفین کا قانونی حق ہے؟

ان کمپنیوں کو فون کرو تو انٹرنیٹ چل پڑتا ہے اور کچھ دیر بعد وہی لوکل ٹرین کی طرح۔

دوسری جانب پی ٹی اے کہتی ہے کہ شکایت آن لائن درج کرائیں اور وہ اس پر ایکشن لیں گے۔ ایمان داری سے بتائیں کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے شکایت درج کرنے کی کوشش کی؟ اور کیا جواب ملا؟

مجھے تو جوابی ای میل آ گئی کہ آپ کی شکایت میں دی جانے والی معلومات نامکمل ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ اس شکایت میں کیا نامکمل ہے۔ مجبوراً دوبارہ فارم بھرو اور پھر وہی جواب موصول کرنے کے لیے تیار رہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فہرست بہت طویل ہے۔ بڑے بڑے جنرل سٹوروں سے لے کر فرنیچر کی دکانوں تک، اے سی کمپنیوں سے لے کر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں تک، ٹیلی کام کمپنیوں سے لے کر عام ٹائر شاپ تک صارفین کے حقوق کا خیال کرنے والا کوئی نہیں۔

مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو کنزیومر کورٹ سے رجوع کریں۔ اکثر اوقات سوشل میڈیا پر ان کمپنیوں اور کاروباروں کے کرتوت سامنے لائے جاتے ہیں۔

کئی بار وکلا بھی سامنے آئے کہ وہ مفت میں کیس لڑیں گے لیکن مڈل کلاس پھر مڈل کلاس ہے اور کورٹ کچہری سے دور رہنا پسند کرتی ہے اور اگر مجبوراً جانا بھی پڑ جائے تو کون سالوں سال پیشیاں بھگتے۔

لیکن کنزیومر کورٹ کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟ دس بارہ کیس کنزیمور کورٹ میں گئے تو یہی کمپنیاں جو اس وقت صارفین کو چیزیں بیچ کر ان پر احسان کرتی ہیں وہی کمپنیاں سیدھی ہو جائیں گی خواہ وہ اے سی بیچتی ہوں، ٹائر یا انٹرنیٹ ڈیوائس۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں پھر بھی جوابدہی کے بغیر ہی کام کریں گی۔  

ورنہ وہی حال ہو گا جو قتیل شفائی کے اس شعر میں بیان کیا گیا ہے:

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ