چمڑے سے بُنی چارپائی جس کی عمر ’کئی سو سال ہوتی ہے‘

بونیر میں چمڑے کی چارپائیاں تیار کرنے والے ایک کاریگر کے مطابق ان چارپائیوں میں زیادہ کھٹمل نہیں ہوتے اور یہ موسم گرما میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم رہتی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ضلع بونیرمیں آج بھی چمڑے سے بنی روایتی چارپائی کافی مقبول ہے۔ 

بونیر کے ڈگر گاؤں سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور گوکنددرہ کے علاقے ٹوپ درہ میں شاہ خیل خاندان کے افراد پرانے اور روایتی طریقے سے تازہ چمڑے کے تاروں سے چارپائی تیارکرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے چمڑے سے چارپائی تیار کرنے والے بخشیر رحمان سے گفتگو کی، جو 15 سال کی عمر سے یہ کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا ’یہ کام ہمارے بڑوں سے چلتا آ رہا ہے اور میں نے بھی ان سے یہ ہنر سیکھا۔ اب میری عمرتیس، پینتیس سال ہے۔ ہمیں مقامی لوگ شاہ خیل کہتے ہیں۔‘

بخشیر نے کہا کہ چمڑے کی تاروں سے تیار چارپائی میں کھٹمل زیادہ نہیں ہوتے، دوسرا یہ کہ گرمی کے موسم میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوتی ہے اور اس پر بستر بچھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

’چمڑے کی پائیداری زیادہ ہونے کے باعث یہ کئی سو سال تک چل سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ چارپائی تیارکرنے کے لیے وہ بونیر کے سواڑی بازار سے ٹھیکیدار قصائی کو فون کر کے ضرورت کے مطابق کھالوں کا آرڈر دیتے ہیں­­­­­­­ اور اس کام کے لیے بھینس کی کھال استعمال کرتے ہیں۔

’گائے کی کھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے جب کہ بھینس کا چمڑا موٹا ہوتا ہے اور اس سے کام بھی اچھا ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے چمڑا تیار کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ کھال کو لانے کے بعد اسے پانی سے دھو لیتے ہیں اور بعد میں دوائی اور نمک ڈالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دوائی اور نمک نہ ڈالیں تو کھال بدبو دینا شروع کر دیتی ہے۔

چھری سے چمڑے کی دونوں اطراف صاف کر کے وہ اس سے تاریں (یا رسی نما چیز) بناتے ہیں، جسے وہ ’تسمہ‘ کہتے ہیں اور پھر اس سے چارپائی تیار کی جاتی ہے۔

بخشیر نے بتایا: ’ہم زیادہ تر آرڈر پر چارپائی بناتے ہیں اور ہمیں پورے پاکستان سے لوگ آرڈر دیتے ہیں۔‘

چمڑے سے بنی چارپائی پر کتنا خرچہ آتا ہے؟

بخشیررحمان کے مطابق پہلے یہ چارپائی اتنی مہنگائی نہیں تھی۔ ’اب تو ہمارا تقریباً دو ہزار روپے صرف تازہ چمڑا لانے پر خرچہ آتا ہے۔ ایک چارپائی پر چار سے پانچ ہزار روپے کاریگر کا خرچہ آتا ہے اس کے علاوہ ترکھان کا بھی خرچہ الگ ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ ایک چارپائی میں چار، پانچ سو روپے تک مناسب منافع رکھ کر بیچ دیتے ہیں۔ ’پہلے ہم پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں میں ہوتے تھے تو چھوٹا موٹا کام تھا، اب جب سے ہم شہر آئے ہیں تو بہت آرڈر آتے ہیں اورکام زیادہ چلتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ عام نہیں بلکہ پرانی لکڑی سے چارپائی تیار کرتے ہیں جسے وہ ’پکا لکڑی‘ کہتے ہیں۔

’جب ہم گاہک کو چارپائی دیتے ہیں تو راستے میں چوکی والے انہیں تنگ کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ ہم پرانی لکڑی استعمال کرتے ہیں، پھر بھی مال روکا جاتا ہے، اس وجہ سے ہم پریشان رہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ چمڑے کی تار سے بنائی جانے والے چارپائی کے لیے پنجاب اور سندھ سے بھی آرڈر آتا ہے جب کہ ’ہمارے علاقے سوات اور بونیر کے لوگوں کی بھی بہت ڈیمانڈ ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا