بی آر ٹی میں سفر کے لیے ایک نئی شرط؟

خیبر پختونخوا وزیر اعلی کے مشیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کی آبادی کو دیکھتے ہوئے کرونا ویکیسنیشن کا تناسب بہت کم ہے۔

’بی آر ٹی سٹیشنوں پر ویکیسنیشن ڈیسک بھی قائم کررہے ہیں‘(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سب سے بڑی عوامی ٹرانسپورٹ سروس  بی آر ٹی میں سفر کے لیےتمام سٹیشنز کے داخلی دروازوں پر کرونا ویکیسنیشن سرٹیفیکیٹ دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے، جس کا اطلاق  گزشتہ روز بیس ستمبر بروز پیر سے ہوگیا ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ فیصلہ پشاور میں کرونا ویکیسنیشن کی شرح میں اضافہ کے ضمن میں لیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں آبادی کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود یہاں ویکیسنیشن کی شرح صوبے کے دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہے۔

تاہم، دوسری جانب ، سرٹیفیکیٹ کی شرط رکھنے کے ساتھ جڑے کچھ چیلنجز بھی ہیں جن کا جواب نہ تو فی الوقت حکومت اور نہ بی آر ٹی کے منتظم ادارے ٹرانس پشاور کے پاس ہے۔

مسافروں کے وقت کا ضیاع، غیر متوقع پریشانی کا سامنا، آزادانہ نقل و حرکت میں بندش سمیت مسافروں کی مزید ممکنہ کمی کے باعث بی آر ٹی کو متوقع خسارے کے سامنے سمیت بی آر ٹی کو اس فیصلے کے بعد کئی مزید چیلنج درپیش ہوں گے۔

سرٹیفیکیٹ کی شرط لاگو ہونے کے دوسرے دن کی صورتحال جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے بعض سٹیشنوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ عوام کارش معمول کے مطابق تھا اور بسیں مسافروں سے لدی آ اور جا رہی تھیں۔

بی آر ٹی سٹیشن کے ایک منتظم ایمل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسافروں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، مزید  استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ اس مد میں سختی نہیں برت رہے ہیں۔

’چند دن میں جب ہم ایک بڑی تعداد کو آگاہ کرچکے ہوں گے، اس کے بعد صرف ان ہی مسافروں کو اجازت ہوگی جنہوں نے پہلی یا دوسری ڈوز لگوائی ہو، اور جن کے پاس اس کا تحریری ثبوت ہو۔‘

دوسری جانب، مسافروں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ زیادہ تر لوگوں کو سفر کے لیے سرٹیفیکیٹ ساتھ لانے کی خبر ہی نہیں تھی۔

حیات آباد مال پر ڈیوٹی دینے والے ایک اہلکار محمد اویس نے بتایا کہ کرونا سرٹیفیکیٹ کا اطلاق انہیں مشکل اس لیے بھی نظر آرہا ہے کہ اکثر مسافر پوچھ گچھ کرنے پر ناراض ہوتے ہیں اور لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں۔

ایک طالبہ نگینہ بی بی نے بتایا کہ انہوں نے ویکیسینیشن کے لیے حاصل کردہ رجسٹریشن پیغام حکام کو دکھا کر سفر کی اجازت حاصل کر لی۔

ایک مسافر ناصر احمد نے کہا کہ انہوں نے سرٹیفیکیٹ کے شرط کی خبر سوشل میڈیا پر پڑھی تھی لیکن وہ سرٹیفیکیٹ ساتھ لانا بھول گئے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سٹیشنوں پر ویکسین لگوانے کا انتظام کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

’بی آر ٹی سٹیشنوں پر ویکیسنیشن ڈیسک بھی قائم کررہے ہیں‘

ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بی آر ٹی ایک ذمہ دار عوامی سروس ہے اور اسی لیے انہوں نے مسافروں پر ایس او پیز کی عملدرآمد ممکن بنائی اور اب ویکسینیشن کی شرح بڑھانے اور  بی آر ٹی کے مسافروں کو اطمینان بخش ماحول فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ یہ درست ہے کہ کرونا سرٹیفیکیٹ کی شرط کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں، لیکن اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل بھی نہیں۔

’ہم محکمہ صحت کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور بہت جلد پانچ چھ بڑے سٹیشنز پر ویکسینیشن ڈیسک قائم کر رہے ہیں۔ عوام صرف موبائل میں پیغام یا اپنی ویکسینیشن کی کوئی سند دکھا سکتے ہیں۔‘

’پشاور میں کرونا ویکسین کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے‘

خیبر پختونخوا وزیر اعلی کے مشیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کی آبادی کو دیکھتے ہوئے کرونا ویکیسنیشن کا تناسب بہت کم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے 19 ستمبر کی تازہ ترین رپورٹ  کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے کہا کہ  پشاور میں  38 فیصد آبادی کو ویکیسن لگوائی گئی ہے، جوکہ مردان، سوات، ایبٹ آباد، چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ، نوشہرہ، صوابی، کوہاٹ، ملاکنڈ، مہمند، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، چترال،  کوہستان اور صوبے کی دیگر علاقوں کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کم ہے۔

کامران بنگش نے کہا کہ آغاز میں کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا بھی مشکل تھا ، لیکن جس طرح وہ ہدف پورا ہوا اسی طرح عوامی ٹرانسپورٹ سروسز میں سرٹیفیکیٹ کی شرط کا ہدف بھی پورا کر لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ بی آر ٹی ہی واحد حکومتی ٹرانسپورٹ سروس نہیں  ہے جہاں سرٹیفیکیٹ کو لازمی قرار دیا جارہا ہے بلکہ لاہور  کے اورنج لائن اور اسلام آباد کے میٹرو بس سروس میں بھی یکم اکتوبر سے سفر سرٹیفیکیٹ سے مشروط ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان