میٹرو بس: نیا ٹھیکہ ترکی کے بجائے مقامی کمپنی کے حوالے

پنجاب حکومت کی جانب سے آٹھ سال بعد کم لاگت کے منصوبے سے سابقہ حکومت کے مہنگے معاہدے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے مطابق نئے معاہدے سے دو ارب روپے سے زیادہ رقم آٹھ سال کے دوران بچائی جا سکے گی(تصویر: ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب)

صوبہ پنجاب کی حکومت نے ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے تحت میٹرو بس سروس چلانے کا منصوبہ اپنی آٹھ سالہ مدت ختم ہونے کے بعد ترک کمپنی سے لے کر مقامی کمپنی کو دے دیا ہے۔

نئے معاہدے کے تحت حکومت نے میٹرو بس پر سبسڈی میں دو ارب سے زیادہ بچت کرنے کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی کہ نئی بسز ماحول دوست ہونے کے علاوہ پرانی بسز سے زیادہ جدید اور آرام دہ ہیں۔

نئی کمپنی نے جدید بسز ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے حوالے کر دی ہیں جبکہ پرانی کمپنی کی بسز گراؤنڈ کر دی گئی ہیں۔

حکام کے مطابق آئندہ آٹھ سال کے لیے نئے معاہدے سے بچت کے ساتھ ماحول کو بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

پنجاب حکومت کی جانب سے آٹھ سال بعد کم لاگت کے منصوبے سے سابقہ حکومت کے مہنگے معاہدے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

حکومت نے لاہور سمیت صوبہ کے دیگر شہروں میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کو اپ گریڈ کرنے کی حکمت عملی تیارکی ہے۔

نئی اور پرانی بسز میں فرق

جنرل مینیجر ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سابقہ حکومت نےغیر ملکی کمپنی کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہوا تھا اس میں یورو ٹو انجن اور پلاسٹک سیٹس والی بسز تھیں۔ لیکن ہم نے نیا معاہدہ مقامی کمپنی ویڈا سے کیا ہے جس کی بسز یورو تھری انجن کی حامل ہیں یعنی پرانی بسوں کے مقابلہ میں کم کاربن خارج کرتی ہیں اور ان کی سیٹس بھی گدے کی اور آرام دہ ہیں اس کے علاوہ ان میں کرونا سے بچاؤ کے لیے ڈس انفیکشن سسٹم بھی لگا ہوا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ جدید ٹیکنالوجی سے تیار کردہ بسیں چلتی تو ڈیزل پر ہی ہیں لیکن ان کی ایوریج مائلیج بھی پہلے والی بسز کے مقابلے میں بہتر ہیں۔

عزیر شاہ کے بقول: ’میٹرو بس روٹ پر چلنے والی پرانی بسز کی حالت ویسے بھی خراب ہو چکی تھی اور ان کی ٹیکنالوجی بھی پرانی ہو چکی تھی۔ نئی 64 بسز کے روٹ پر آنے سے سروس میں بھی بہتری آئے گی۔‘

’ان بسز میں سواریوں کی گنجائش بھی پرانی بسز جتنی 160 ہی ہے، ساخت میں بھی کوئی فرق نہیں آیا لہذا نئی بسز سے سروس اخراجات بھی کم ہو جائیں گے۔‘

سابقہ اور موجودہ حکومت کا معاہدہ

لاہور میں ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہباز شریف کی حکومت نے جاپان کی کمپنی سے ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے منصوبہ تیار کرایا تھا۔

2009 میں کمپنی انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی نے ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے تحت پانچ انٹر سٹی روٹس کی تجویز دی تھی جس کے تحت سابقہ حکومت نے نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کی باقائدہ پہلی انٹر سٹی ٹرانسپورٹ سروس پر کام شروع کیا تھا۔ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب کے زیر اہتمام میٹروبس سروس کا منصوبہ 2013 میں مکمل ہوا تھا۔

ترک کمپنی نے یہاں اپنی بسز چلائیں اور آٹھ سال کے لیے کیے گئے منصوبے میں 360 روپے فی کلو میٹر کرائے کے لحاظ سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ حکومت نے سبسڈی دیکر شہریوں کے لیے کرایہ 20 روپے مقرر کیا تھا۔

اس منصوبہ کے اختتام پر موجودہ حکومت نے مقامی کمپنی سے معاہدہ کیا اور اب نئے معاہدے کے تحت پنجاب حکومت بس سروس فراہم کرنے والی کمپنی کو فی کلو میٹر 304 روپے ادا کرے گی جبکہ عام شہریوں کے لیے کرایہ سبسڈی کے ساتھ وہی پرانا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے مطابق نئے معاہدے سے دو ارب روپے سے زیادہ رقم آٹھ سال کے دوران بچائی جا سکے گی۔

وزیر اعلی نے پیر کو نئی کمپنی سے معاہدے کے بعد نئی بسز کا افتتاح بھی کیا اور اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ ’حکومت کا لاہور کے شہریوں کے لیے آرام دہ اور جدید سفری سہولتیں فراہم کرنے کے لئے بڑا اقدام ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سابقہ دور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ ہماری حکومت نے سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد اور انٹرنیشنل کمٹمنٹ کے پیش نظر اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین کو فنکشنل بھی کیا اوراس کا کرایہ بھی 40 روپے تک محدود رکھا اور اس منصوبے کے لیے  سالانہ تقریباً 6.3 ارب روپے سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔‘

وزیر اعلی پنجاب کے مطابق: ’ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے عزم کے تحت لاہور میں الیکٹرک بسز چلانے کا منصوبہ بھی لارہے ہیں۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی نئی ماحول دوست بسز شروع کی جائیں گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان