بریسٹ کینسر کی مریضہ کی وگ پہن کر ماڈلنگ

چھاتی کے سرطان سے لڑنے والی رباب لوگوں میں شعور پھیلانے کے لیے وگز بنانے والی این جی او اور ایک برانڈ کے ساتھ مل کر ماڈلنگ کر رہی ہیں۔

40 سالہ رباب راشد کی  کیمو تھراپیز کے ساتھ ساتھ آپریشن بھی ہو چکا ہے (سکرین گریب)

اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے کینسر کے مریضوں کے نام کیا جاتا ہے۔

اس مہینے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائی جاتی ہے۔

اس معاملے میں مختلف نوعیت کے برانڈز بھی آگے آگے ہوتے ہیں۔ جو مریض اس بیماری سے گزر رہے ہوتے ہیں یا گزر چکے ہیں وہ بھی رضا کارانہ طور پر لوگوں کو آگاہ کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔

40 سالہ رباب راشد بھی چھاتی کے سرطان سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کی کیمو تھراپیز کے ساتھ ساتھ آپریشن بھی ہو چکا ہے۔

تاہم ابھی ان کی ریڈیو تھراپی کا مرحلہ باقی ہے اسی لیے رباب خود ابھی ’کینسر سروائیور‘ نہیں کہتیں۔

رباب نے اکتوبر میں کپڑوں کے ایک مشہور برانڈ آغا نور کی ’کرتا لائن‘ کے لیے ماڈلنگ کی۔

یہ سفید اور پیازی کرتی جتنی بکے گی اس کی رقم کراچی میں کینسر کے مریضوں کے لیے وگز بنانے والے ایک فلاحی ادارے ’ہیئر ٹو ہیلپ‘ کو جائے گی۔

رباب کے مطابق ’ہماری مشرقی ثقافت میں بالوں کوخوبصورتی کے تاج کا موتی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں وگ کی ضرورت اپنی چھٹی کیمو تھراپی کے بعد پیش آئی۔‘

رباب کہتی ہیں کہ ان کی ایک دوست رانیہ نے انہیں ہیئر ٹو ہیلپ کا بتایا کیونکہ وہ خود اپنی والدہ کے کینسر کے دوران اپنے بال اس ادارے کو عطیہ کر چکی تھیں۔

رباب نے ادارے سے رابطہ کیا اور انہیں دو دن میں وگ مل گئی۔

رباب کہتی ہیں کہ جب انہوں نے وگ پہننی شروع کی تو اپنے اندر واضح تبدیلی دیکھی۔

ان کا اعتماد بحال ہوا، ان کا لوگوں سے ملنے کا دل چاہنے لگا اور تو اور ان کی رپورٹیں بھی اچھی آنے لگیں۔

رباب نے بتایا کہ شوکت خانم ہسپتال میں بھی مریضوں کے لیے وگز موجود ہیں لیکن وہاں لوگوں کو زیادہ علم نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ شوکت خانم ہسپتال میں وگز ان کی گفٹ شاپ میں رکھی گئی ہیں لیکن کرونا کی وجہ سے وہ شاپ بند تھی اس لیے وہ لوگوں کو مل نہیں رہیں تھیں۔

لیکن رباب نے اپنے معالج ڈاکٹر مظہر سے درخواست کی کہ مریضوں کے لیے ہسپتال میں موجود وگوں کو عام کریں جس کے بعد سے اب تک ہیئر ٹو ہیلپ کی مزید دو کنسائنمنٹس شوکت خانم ہسپتال آچکی ہیں۔

مرض چاہیں تو وہاں سے بھی اپنے لیے وگ لے سکتے ہیں۔

رباب چاہتی ہیں کہ وہ اپنے جیسے کینسر کے مریضوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلا کر ان کی زندگی کو آسان بنائیں۔

ہیئر ٹو ہیلپ کے بانی سید فہد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 2011 سے یہ ادارہ چلا رہے ہیں۔

اب تک وہ ہسپتال کو بھی تقریباً 250 وگز دے چکے ہیں جو وہاں مریضوں کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

 

ان کا کہنا تھا کہ آغا نور برانڈ گذشتہ تین برس سے ان کا وگز بنانے کا خرچہ اٹھا رہا ہے۔

’اس بار بھی انہوں نے اپنی ایک کرتی کی لائن تیار کی جس میں وہ چاہتے تھے کہ جن لوگوں نے وگز لیں ہیں وہ ماڈلنگ کریں لیکن کوئی تیار نہیں ہوا۔‘

فہد کہتے ہیں کہ دراصل لوگ گھبراتے اور ڈرتے ہیں کہ ان کے بال نہیں ہیں تو لوگ انہیں دیکھ کر کیا کہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن پھر رباب اس مہم کا حصہ بنیں۔ فہد کے مطابق رباب کے اس طرح برانڈ ایمبیسیڈر بننے سے ایک اچھا پیغام جائے گا کہ اس بیماری کو قبول کریں اور اس سے لڑیں۔

فہد نے بتایا کہ جب انہوں نے یہ فلاحی کام شروع کیا تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

فہد نے بتایا کہ انہیں لوگوں نے یہاں تک کہا کہ شاید وہ یہ بال جادو ٹونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

’شروع میں میرے دوستوں نے بال عطیہ کیے اور پہلی وگ مجھے چین سے بنوانی پڑی کیونکہ یہاں کوئی بھی وگ نہیں بناتا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس