آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا

حقیقت یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے بیان کے بالکل برعکس آسیہ بی بی اور ان کا خاندان اپنی آزادی مکمل طور پر گنوا چکے تھے۔ پاکستان کے کسی بھی عام شہری کی طرح زندگی گزارنے کا اختیار اب ان کے پاس ہرگز نہیں تھا۔

مقدمے کے فیصلے کے بعد ایک مشتعل ہجوم کا احتجاج (اے پی)

آسیہ بی بی، وہ مسیحی خاتون جنہیں گزشتہ برس سپریم کورٹ نے توہین  مذہب کے مقدمے سے بری قرار دیا، اپنا آبائی ملک چھوڑ کر کینیڈا میں پناہ لے چکی ہیں، جہاں وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ دوبارہ آرام سے رہ سکیں گی۔
اسی مقدمے میں سزائے موت پانے کے بعد (پچھلے کیس کے فیصلے کے مطابق) جیل میں گزرے طویل نو برس بالاخر انہیں توہین کے الزام سے بری ہونے کی خوشخبری سنا پائے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں مذہبی سخت گیر موقف رکھنے والے گروہوں کی طرف سے فسادات کی آگ بھڑکائی گئی، یہ صورت حال آسیہ بی بی کی زندگی کے لیے ایک مسلسل خطرہ تھی۔
اعلیٰ حکام اس بات سے بخوبی آگاہ تھے۔ جب آسیہ بی بی نومبر میں ملتان کی ویمن جیل سے رہا ہوئیں تو انہیں ایک خصوصی جہاز کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا اور پھر محفوظ نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ سرکاری افسران بھی ان کی نقل و حرکت کے بارے میں مستقل خاموش اور تقریبا لاعلم تھے۔
رواں برس جنوری میں سپریم کورٹ نے انہیں مقدمے کی ریویو پٹیشن سے بھی بری کیا تو ان کی آزادی یقینی ہو گئی۔ آخر کار مئی کے شروع میں وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں تصدیق کی کہ آسیہ بی بی ایک آزاد شہری ہیں اور وہ اپنی مرضی سے بیرون ملک سفر کر رہی ہیں۔
یقینا توہین مذہب جیسے گھمبیر الزام سے بری ہو جانے کے بعد آسیہ بی بی کے پاس دو ہی راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ پاکستان ہی میں رہیں اور دوسرا یہ کہ وہ یہاں سے رخصت ہو کر کسی محفوظ مقام پہ منتقل ہو جائیں، وہ مقام بہرحال کوئی مغربی ملک ہی ہونا تھا۔ 
تو کیا واقعی پاکستان میں رکے رہنا کوئی راستہ ہو بھی سکتا تھا؟ 
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2012 میں توہین کے الزامات سے بری ہونے کے باوجود بھی دو شہریوں کو اپنا شہر چھوڑنا پڑ گیا تھا۔ وہ دوسری جگہ جا کے بھی کسی سے زیادہ بات چیت نہیں کر سکتے تھے، انہیں مستقل یہی خدشہ تھا کہ توہین والا معاملہ یہاں بھی کھل گیا تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ الزامات لگنے سے پہلے آسیہ بی بی اور ان کا خاندان جہاں رہتے تھے، اب ان کا وہاں رہنا بالکل ناممکن ہوتا۔ وہ کوشش کرتے بھی تو ان کو شدید خطرات کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح کسی دوسرے شہر چلے جانا بھی کچھ زیادہ آسان نہ ہوتا۔ خاص طور پہ اگر اس شہرت کو مدنظر رکھا جائے جو اس مقدمے کو میڈیا پر ملی تو ایسا کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے بیان کے بالکل برعکس آسیہ بی بی اور ان کا خاندان اپنی آزادی مکمل طور پر گنوا چکے تھے۔ پاکستان کے کسی بھی عام شہری کی طرح زندگی گزارنے کا اختیار اب ان کے پاس ہرگز نہیں تھا۔
اپنے ملک میں وہ لوگ جہاں مرضی چلے جاتے، توہین  مذہب کے الزام کی تلوار باقی ساری زندگی ان کے سروں پر لٹکتی رہتی۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے جہاں مذہبی قانون سازی پر عقلی بحث ناممکن ہے۔   
یہ بھی ہو سکتا تھا  کہ ان کا انجام لاہور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس عارف اقبال بھٹی جیسا ہوتا جنہیں 1997 میں اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے تین سال پہلے سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو بلاسفیمی مقدمے سے بری کیا تھا۔ ان کے قاتل نے اعترافی بیان میں یہ کہا تھا کہ جسٹس عارف اقبال کو اس لیے قتل کیا گیا چونکہ انہوں نے  توہین  مذہب کے قصوروار کو آزاد کر دیا تھا۔ 
کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آسیہ بی بی نے دوسرا اور واحد قابل عمل راستہ اختیار کیا۔ وہ اس امید میں ملک چھوڑ کر گئیں کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک محفوظ ماحول میں نئی زندگی کی شروعات کریں گی۔
آسیہ بی بی کوئی پہلی پاکستانی نہیں ہیں جنہوں نے اس طرح کے الزام کے بعد ملک چھوڑا ہے۔ یونس شیخ نامی ایک ڈاکٹر پہ بھی 2000 میں توہین کا الزام لگا اور 2003 میں بری ہوتے ہی انہیں یورپ کا رخ کرنا پڑا۔ اسی طرح 2012 میں رمشا مسیح کے ساتھ ہوا۔ مقدے سے بری ہونے کے بعد انہیں کینیڈا میں سیاسی پناہ مل گئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


’وہ ایک آزاد شہری ہیں اور وہ اپنی مرضی سے سفر کر رہی ہیں‘ آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد حکومت پاکستان اس بات پر بضد تھی۔ اصل میں یہ نظریہ ایک نوٹنکی ہے۔ 
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسیہ پر جھوٹے الزام لگائے اور اپنی تقریروں میں بار بار  آسیہ کے بری ہونے کے باوجود ان کو واجب القتل قرار دیتے رہے۔  
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ کرنے والے ججوں کے قتل پر لوگوں کو اکسایا اور اسی بات پر فوج میں بھی بغاوت کا کہا۔
آزاد وہ لوگ ہیں جن کی دھمکیوں اور توہین مذہب کے الزامات لگانے کی صلاحیت سے ڈرتے ہوئے توہین  مذہب قوانین  کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانا قانون سازوں کے لیے بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔  
آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی دھمکیاں دے کر قومی اسمبلی کی رکن شیری رحمان کو توہین رسالت بل میں ترمیم (غلط استعمال سے متعلق) کروانے کی سفارشات سے باز رکھا۔ 
موجودہ صورت حال میں پاکستان کسی طور بھی اس خطرناک مسئلے پر مذہبی شدت پسندوں سے نہیں نمٹ سکتا، چاہے کسی پر بھی غلط الزام لگیں یا کوئی شخص بے قابو ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے۔ جب تک اس مسئلے سے نمٹنا ممکن نہیں ہوتا، تب تک آسیہ بی بی یا کسی بھی دوسرے ایسے انسان کے لیے یہاں کوئی آزادی نہیں  ہے۔ انہیں زندگی کی تلاش میں کسی اور جگہ کا رخ کرنا پڑے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر