اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے معاملے پر سعودی عرب کی حمایت کی ہے۔
سعودی فرما نروا شاہ سلمان نے ہفتے کو او آئی سی کے رکن ممالک کو خبردار کیا کہ خلیجی علاقے میں دہشت گرد حملوں سے عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی فرمانروا کی جانب سے یہ انتباہ چار بحری جہازوں پر حملے کے بعد آیا ہے۔
حملے کا نشانہ بننے والوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز بھی شامل تھے۔ یمن کے حوثی باغیوں کے ڈرون حملے میں سعودی عرب میں تیل کی اہم پائپ لائن بند ہو گئی تھی۔
سعودی عرب۔ایران کشیدگی کے معاملے پر تنظیم کا اجلاس سعودی شہر مکہ میں ہوا۔ او آئی سی کا یہ تیسرا اجلاس ہے جو ایران کے معاملے پرہوا۔
شاہ سلمان نے اجلاس میں کہا: ’ہم تصدیق کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں نہ صرف سعودی عرب اور خلیج کے علاقے کو ہدف بنایا جارہا ہے بلکہ بحری نقل و حرکت اور عالمی سطح پر تیل کی فراہمی بھی نشانے پر ہے۔ ‘
ایران نے کسی بھی ایسے واقعے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔
او آئی سی سربراہ اجلاس سے پہلے شاہ سلمان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں جارحانہ دھمکیوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کے مقابلے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانا، عرب اور اسلامی دنیا کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب او آئی سی نے ہفتے کو فلسطینیوں کی حمایت کی۔ یہ حمایت امریکی قیادت میں اسرائیلی جھکاؤ کے حامل امن منصوبے سے پہلے کی گئی۔
او آئی سی اجلاس میں خلیجی اورعرب رہنماؤں نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے اورگولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کے متنازع امریکی اقدام کی مذمت بھی کی۔
تنظیم نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ان ملکوں کا بائیکاٹ کریں جنہوں نے یروشلم میں سفارتی مشن کھولے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی دہائیوں سے جاری پالیسی تبدیل کرتے ہوئے دسمبر 2017 میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا۔ واشنگٹن کی جانب سے ایران پرپابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکہ 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے کثیرملکی معاہدے سے نکل چکا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ امریکی صدر کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ایران کے معاملے میں امریکی لہجے میں نرمی آئی ہے۔