خوراک کی قلت پچھلی حکومت کی چھوڑی میراث ہے: طالبان

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر صحت نے کہا ہے کہ ملک میں خوراک کا بحران پچھلی حکومت کی ’میراث‘ ہے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے بین الاقوامی برادری پر اپنے امداد کے عہد کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اقوام متحدہ نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ افغانستان میں تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افراد موسم سرما میں خوراک کی ’شدید‘ قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر صحت نے کہا ہے کہ ملک میں خوراک کا بحران پچھلی حکومت کی ’میراث‘ ہے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے بین الاقوامی برادری پر اپنے امداد کے عہد کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اقوام متحدہ نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ افغانستان میں تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افراد موسم سرما میں خوراک کی ’شدید‘ قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نائب وزیر صحت عبدالباری عمر نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ایک بہت اہم مسئلہ ہے جو گذشتہ حکومت میراث کی شکل میں چھوڑ گئی ہے اور وہ ہے خوراک کی قلت۔‘

انہوں نے کہا کہ 20 سال تک صحت کا شعبہ غیرملکی امداد پر انحصار کرتا رہا ہے۔ ایسا کوئی بنیادی کام نہیں کیا گیا کہ ہیلتھ کیئر کا انفراسٹرکچر اور اس کے وسائل باقی رہ سکتے۔‘

واضح رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو گذشتہ حکومت کا تختہ الٹ کر کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنی حکومت کا بھی اعلان کیا۔

تاہم اس کے بعد بین الاقوامی برادری نے افغانستان کے لیے امداد بند کر دی تھی۔

داعش خراسان کے خلاف کریک ڈاؤن

دوسری جانب افغانستان میں طالبان کو ایک اور بڑے مسئلہ درپیش ہے جو کہ داعش کا ہے جس کے بارے میں طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب میں داعش خراسان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔

طالبان حکام کے مطابق یہ آپریشن حالیہ ہفتوں کے دوران داعش کے ہلاکت خیز حملوں میں اضافے کے بعد کیا گیا۔

طالبان پولیس کے صوبائی سربراہ عبدالغفار محمدی نے بتایا کہ داعش خراسان کے خلاف قندھار کے کم از کم چار اضلاع میں آدھی رات کے قریب آپریشن شروع کیا گیا جو پیر کی صبح تک جاری رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ’اب تک داعش کے چھ جنگجوؤں کو ہلاک اور 10 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘

طالبان کے خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ داعش کے خلاف کارروائی میں کم از کم تین شہری بھی مارے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی میڈیا نے طالبان عہدے دار کا حوالہ دیا جن کا کہنا ہے کہ پیر کو دارالحکومت کابل کے مغربی نواحی علاقے میں دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تین ماہ سے داعش جلال آباد، قندوز، قندھار اور کابل میں متحرک ہے۔ گذشتہ ماہ گروپ نے قندھار کی ایک مسجد پر خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

یہ حملہ قندوز کی مسجد پر کیے گئے اس مہلک حملے کے ایک ہفتے کے بعد کیا گیا جس میں 60 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ داعش نے اس حملے کا دعویٰ کیا تھا۔

گروپ نے اتوار کو اختتام ہفتہ پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں ایک منی بس تباہ ہو گئی۔ حملے میں ایک نامور صحافی اور دیگر افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس ماہ کے اوائل میں داعش کے جنگجوؤں نے کابل کے نیشنل ملٹری ہسپتال پر بھی حملہ کیا تھا جس میں کم از 19 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔

داعش نے اپنے گڑھ اور مشرقی صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں بھی متعدد حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

اس سے قبل طالبان نے افغانستان میں شدت پسند گروپس پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کے امکان کو مسترد کر دیا تھا۔

اگست میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے امریکہ کے ساتھ پہلے براہ راست مذاکرات سے پہلے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ بنیادی مسئلے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’افغانستان میں داعش خراسان کے مسلسل فعال ہونے کے بعد واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہو گا۔‘

داعش خراسان کے خلاف کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں سوال پرسہیل شاہین کا کا کہنا تھا کہ: ’ہم آزادانہ طور پر داعش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

 2014 میں مشرقی افغانستان میں منظر عام پر آنے کے بعد داعش نے افغانستان کی شیعہ آبادی کو مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ داعش کو امریکہ کے خلاف بڑے خطرے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

20سالہ جنگ ختم کرتے ہوئے اگست کے آخر میں امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بعد اختتام ہفتہ پر امریکہ اور طالبان کے درمیان پہلی بار بات چیت ہو رہی ہے۔ امریکہ واضح کر چکا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات انہیں تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز نہیں ہیں۔

داعش کا کہنا تھا کہ اویغور مسلمانوں کو افغانستان سے نکالنے کا چین کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مبینہ رضا مندی پر شیعہ مسلمانوں اور طالبان دونوں کو ہدف بنایا گیا۔ اگست کے اختتام پر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد یہ مہلک ترین حملہ تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا