خواتین اپنی ڈیجیٹل بہبود اور تحفظ کو یقینی کیسے بنائیں؟

سماجی رابطوں کی سائٹس پر خواتین ہراساں کیے جانے کے واقعات آئے روز سامنے آتے ہیں۔ چند صحافی خواتین کو بھی اپنے سوشل میڈیا پر کافی ٹرولنگ اور ہراسمنٹ کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔

 22 دسمبر 2016 کی اس تصویر میں آن لائن ہراسانی کا نشانہ بننے والی اداکارہ ایمان سلیمان انٹرویو کے دوران(اے ایف پی فائل)

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں چند صحافی خواتین بھی شامل ہیں جنہیں اکثر ٹرولنگ کی صورت میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن کیا یہ مسئلہ صرف خواتین صحافیوں کو ہی درپیش ہے یا ان خواتین کو بھی جو پبلک فگر تو نہیں مگر مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں؟

یہی جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ایسے ادارے جو سائبر ہراسمنٹ یا سائبر کرائمز کی شکایات موصول کرتے ہیں ان سے رابطہ کیا لیکن شکایت کنندہ کی شناخت اور رازداری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا رابطہ ممکن نہ کروا سکے۔

خواتین اپنے ڈیجیٹل تحفظ کے لیے کیا کرتی ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر خواتین کے مخصوص گروپس میں یہ سوال پوسٹ کیا کہ کیا خواتین کو آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسی صورتحال میں وہ کیا کرتی ہیں، آن لائن سپیس کو وہ کیسے محفوظ بناتی ہیں اور اپنی ڈیجیٹل بہبود کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ان گروپس میں مو جود کچھ خواتین جو سیلز اینڈ مارکیٹنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں نے ہم سے رابطہ کیا اور نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی۔

ایسی ہی ایک صارف نے بتایا کہ وہ ڈیجیٹل مارکیٹینگ کرتی ہیں اور اپنا آن لائن بزنس بھی چلاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھی اپنی ذاتی پوسٹس پر اکثر مختلف اقسام کے ایسے کمنٹس پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا اس پوسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

’ہمارے ہاں مرد تو آپ کو ہراساں کرتے ہی ہیں لیکن کچھ خواتین بھی دماغی طور پر بہت پیچھے ہیں ان کو صرف دوسروں کو تنگ کرنے یا ان کی ٹانگ کھینچنے میں مزہ آتا ہے۔‘

مذکورہ صارف نے بتایا کہ چند روز قبل بھی انہوں نے اپنے کاروبار کے حوالے سے کسی گروپ میں پوسٹ کی تو خواتین نے ان کی پروڈکٹ کو جانے یا پرکھے بغیر تنقید شروع کر دی۔ کمنٹ کرنے والی کچھ خواتین ان کی ذاتی فیس بک اکاؤنٹ پر ان کے دوستوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق ’ایسی صورتحال میں میں کمنٹ کرنے والے کو بلاک کر دیتی ہوں۔ صورتحال حد سے خراب ہو جائے تو وہ آن لائن ہراساں کرنے والوں کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر رپورٹ بھی کر دیتی ہوں۔‘

ایک اور صارف جو کپڑوں کا کام کرتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنا آن لائن بزنس شروع کیا تولوگوں نے ان کے برانڈ کے نام، ان کے کپڑوں اور ان کا مذاق اڑایا لیکن انہوں نے ان سب کو بلاک کر دیا اور اپنا کام جاری رکھا۔ 

جہاں تک خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیے جانے کی بات کریں تو ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی شریک بانی، صحافی اور سینئیر سیاسیی تجزیہ کار محمل سرفراز بھی حالیہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر ٹرولنگ اور ہراسمینٹ کا شکار رہی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے محمل سرفراز کا کہنا تھا: ’جہاں تک ڈیجیٹل سکیورٹی کی بات ہے تو میرے سماجی رابطوں کی سائٹس پر بنے اکاؤنٹس کومتعدد بار ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔میرے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ہر دوسرے دن ہیک کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ میرے واٹس ایپ کو بھی کئی بار ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں نے سکرین شاٹس کے ساتھ اس حوالے سے ٹویٹس کیں۔ اور ہر چیز کو تحریری طور پر اپنے پاس محفوظ کیا۔‘

 محمل نے بتایا کہ انہوں نے ڈیجیٹل رائٹس اور ڈیجیٹل ایکسپرٹ فریحہ عزیز سے بات کی اور فریحہ نے انہیں اپنے اکاؤنٹس کو مزید محفوظ بنانے کے لیے کچھ ہدایات دیں۔ جس کے بعد محمل 20 اگست 2021 کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے پاس گئیں اور اپنے بیانات اور شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔

 محمل کہتی ہیں:’جہاں تک میری ڈیجیٹل بہبود کی بات ہے تو چونکہ میں ایک ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کی شریک بانی ہوں، صحافی ہوں مجھے ہر روز معلومات عامہ اور حالات حاضرہ سے باخبر رہنا ہوتا ہے اس لیے مکمل طور پر آف لائن نہیں جا سکتی۔ البتہ اب میں ٹرولز کو میوٹ کر دیتی ہوں۔‘

محمل کے مطابق جو لوگ ان کا نام ٹیگ کر کے کچھ پوسٹ کرتے ہیں تو وہ ان پوسٹس کو تب تک نہیں کھولتیں جب تک کہ وہ ان کے جاننے والوں کی جانب سے نہ ہوں۔ 

’ٹرولز کو میوٹ کرنے سے میری ٹائم لائن صاف رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب سے یہ آپشن آیا ہے کہ صرف آپ کی پوسٹ پر وہی جواب دے سکتے ہیں جو آپ کو فالو کرتے ہیں، میں وہی آپشن استعمال کرتی ہوں اس پر ٹرولز ٹویٹ کرتے رہیں میں نے وہ دیکھنی ہی نہیں ہیں۔‘

پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والا ادارہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق ان کے سائبرہراسمنٹ ہیلپ لائن پرجنوری 2021 سے اکتوبر 2021 تک مختلف اقسام کی سائبر ہراسمنٹ کی 3837 شکایات موصول ہوئیں۔ ان شکایت کنندہ میں 2713 خواتین، 1148 مرد اور11 ٹرانس جیڈر افراد شامل ہیں۔ 

خواتین صارفین کی ڈیجیٹل بہبود اور سکیورٹی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ 

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر آیف) اسی حوالے سے 18 نومبر سے تین روزہ فیلو شپ کا آغاز کر رہا ہے جس میں پاکستان بھر سے خواتین صحافی شرکت کریںگی۔

 ڈی آر ایف کی پروگرام مینیجر سیرت خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیجیٹل بہبود یا تحفظ صرف خواتین صحافیوں کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ ہر خاتون صارف جو سوشل میڈیا استعمال؛ کرتیں ہیں انہیں اپنے ڈیجیٹل تحفظ اور بہبود کا علم ہونا ضروری ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیرت کے بقول: ’ڈی آر ایف کی حالیہ ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 78 فیصد خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیا گیا۔ وہ سوشل میڈیا پر جو بات کرتی تھیں اس پر انہیں مسلسل تنقید یا غلط الفاظ کا سامنہ کرنا پڑ رہا تھا۔ اس صورتحال نے انہیں مایوس بھی کیا اور ذہنی دباؤ کا شکاربھی جس سے ان کا کام متاثر ہوا۔‘

سیرت کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں آن لائن ہراساں کیے جانے کے حوالے سے موجود قوانین کے حوالے سے خواتین کو معلوم ہونا چاہیے۔ جیسے آزادی رائے، حتک عزت کے مقدمے بھی آجکل درج ہو رہے ہیں۔‘

سیرت نے بتایا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو کوئی آن لائن ہراساں کر رہا ہے تو آپ مدد کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ایف آئی اے میں رپورٹ کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ جب تک آپ رپورٹ نہیں کریں گے ہراساں کرنے والے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ آپ کے رپورٹ کرنے سے انہیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ جو کر رہے ہیں انہیں اس کے سنگین نتائج بھگنے پڑیں گے۔ اس کے علاوہ ڈی آر ایف کی ہیلپ لائن بھی موجودہے۔

سیرت خان کے خیال میں خواتین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آن لائن سپیس پر موجودہ زہریلے (toxic) ماحول سے کس طرح نمٹا جائے؟

ڈیجیٹل بہبود: (Digital wellbeing) 

ڈیجیٹل ڈی ٹاکس: ’بہت ضروری ہے کہ جب آپ کو یہ محسوس ہو کہ ڈیجیٹل سپیسز بہت زیادہ ہو گئی ہیں اور آپ پر بہت زیادہ حملے کیے جارہے ہیں تو کس طرح آپ اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک ڈیجیٹل ڈی ٹاکس کریں۔ اس میں آپ سیلف کئیر کی طرف آئیں جس میں آپ آن لائن سپیس کو اگر کچھ عرصے ک لیے چھوڑ دیں تو اس میں کوئی مضاحکہ نہیں۔‘

سیرت کہتی ہیں کہ سیلف کئیر ہر کسی کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ ’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا کام زیادہ ہو رہا ہے آپ اپنے ذہنی دباؤ پر قابو نہیں پا رہے تو خود کو کچھ دیر کے لیے آزاد کریں اور ان لوگوں سے رابطے میں آئیں جو آپ آپ کی بات سنیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔ اس کے لیے سپورٹ نیٹ ورکس کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے۔ ایسے سپورٹ گروپس کے ہونے سے آپ کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو آپ کی صورتحال کو سمجھیں گے۔‘

ڈیجیٹل تحفظ: (Digital security)

سیرت کا کہنا ہے کہ ’سب زیادہ اہم چیز اپنی رازداری کی حفاظت کرنا ہے۔ چاہے وہ صحافی ہیں یا کوئی اور۔ صحافی چونکہ پبلک فگر ہوتے ہیں اور وہ بہت کچھ آن لائن پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں جنہیں بہت سے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اپنی پرائیویسی سیٹنگ کو سخت رکھیں۔ جیسے اپنے پاسورڈ رومن اردو میں بنائیں تو زیادہ بہتر ہے۔‘

سیرت کہتی ہیں کہ ’اپنے تمام سوشل میڈیا کاؤنٹس یہاں تک کہ واٹس ایپ پر ٹو فیکٹر اوتھینٹیکیشن ہمیشہ آن رکھیں اس سے آپ کے تمام سوشل میڈٰیا اکاؤنٹس آپ کے فون کے ساتھ جڑ جائیں گے اور اگر آپ کے اکاؤنٹ تک کوئی ایسی ڈیوائس لاگ ان کرنے کی کوشش کرے جسے آپ نہیں پہچانتے تو آپ کو فون پر ایک پیغام اور کوڈ موصول ہوگا۔ وہ کوڈ کسی کو نہ بتائیں۔ اسے یاد رکھیں، اس سے آپ کا اکاؤنٹ محفوظ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق یہ ضروری ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ سوشل میڈیا پر جو آپ کے دوستوں یا فالوئرز کی لسٹ میں لوگ ہیں وہ کون ہیں؟ اپنی فرینڈز لسٹ کو سکرین کرتے رہیں۔ وہ لوگ جن کو آپ نہیں جانتے ان کو اپنے دوستوں کی لسٹ میں شامل نہ کریں۔

کسی پرائیویٹ سرچ کے لیے ان کوگنیٹو موڈ آن کرلیں اور سوشل میڈیا پر اپنی تصاوری ڈالنے سے پہلے ان کی رازدیری کی سیٹنگ کو سخت بنائیں اور گوگل پر اپنے نام سے اپنی تصویر کو ڈھونڈتے رہیں تاکہ آُ کو معلومہو کہ آُ کی تصاویر کہیں کوئی استعمال تو نہیں کر رہا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین