یہ اختلافِ رائے نہیں ہراسانی ہے

اب بھی دیر نہیں ہوئی کہ معاشرے میں عدم برداشت کو مزید پھیلنے سے روکا جائے اور کم از کم اس کا آغاز تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں سے کریں۔  

کسی کو یہودی ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہوتا ہے تو کسی کی ماضی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال کر ایسی ایسی باتیں کہی جا رہی ہوتی ہیں جو ناقابل اشاعت ہوتی ہیں (پکسیلز)

ہر شخص کو رائے رکھنے کا حق ہے اور ہر شخص کو اس رائے سے اختلاف کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ لیکن اختلاف رائے کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے یہ ایک فن ہے۔ آج کل پاکستان میں سوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو بہت ہی کم لوگ ہوں گے جن کو یہ فن آتا ہے۔

عدم برداشت بظاہر آج کل کے دور میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کسی بھی رائے جس سے دوسرا شخص متفق نہیں ہے وہ یہ مان کر چلتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے کہ رائے سے اختلاف کرنے کے حق کے ساتھ ساتھ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جائے۔

لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اختلاف رائے کو مہذب طریقے سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مہذب طریقے سے اخلاف رائے کو پیش کرنا نہ صرف فن ہے بلکہ انسان ہونے کی بھی نشانی ہے۔

کسی بھی چیز پر اختلاف رکھنے اور تہذیب کی حدیں پار کر جانے جس کو ٹرولنگ یا ہراسانی کہا جاتا ہے میں بہت فرق ہے۔

صحافی بھی انسان ہی ہیں اور خصوصاً جب وہ کالم لکھتے ہیں تو وہ اپنی رائے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس رائے کو رکھنا ان کا حق ہے جبکہ اس رائے سے متفق نہ ہونا دوسروں کا حق ہے۔ لیکن اختلاف رائے میں حدیں پار کرنا کسی کا حق نہیں ہے۔

ایک کالم چھپتا ہے اور اس کے بعد ہر طرح کے غلیظ ہیش ٹیگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کوئی کسی کو طوائف کہہ رہا ہوتا ہے تو دوسرے کو کسی اور لقب سے ہیش ٹیگ میں یاد کر رہا ہوتا ہے۔ کسی کو یہودی ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہوتا ہے تو کسی کی ماضی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال کر ایسی ایسی باتیں کہی جا رہی ہوتی ہیں جو ناقابل اشاعت ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ہم صحافیوں یا کالم نگاروں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ٹرولنگ اور رائے دینے میں بہت فرق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رائے دیتا ہے جو آپ کی رائے سے مختلف ہے تو اس کو ٹرولنگ نہیں کہا جاتا۔

حال ہی میں عاصمہ شیرازی کا کالم شائع ہوا اور اس پر طرح طرح کے ہیش ٹیگ شروع ہو گئے۔ ہر قسم کی زبان استعمال کی گئی۔ درست کہ عاصمہ کو بھی شاید وہ ایک دو سطریں نہیں لکھنی چاہیے تھیں لیکن اگر اس حوالے سے مہذب طریقے سے پیغام پہنچایا جاتا تو نہ تو عاصمہ اتنی کند ذہن ہیں اور نہ ہی دیگر صحافی جو اس رائے کو قبول نہ کرتے۔ ہم صحافی ہر وقت اپنے کام پر فیڈ بیک کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارا کام اچھا ہے تو سراہا جائے اور اگر کمی بیشی رہ گئی ہے تو نشاندہی کی جائے۔

بے شک صحافیوں سے سوال کرنا نہ تو ہراسانی ہے اور نہ ہی ٹرولنگ۔ بے شک ان کی غلطیوں کو اجاگر کرنا بھی از خود غلطی نہیں ہے۔ بے شک اگر صحافی غیر جانبدار نہ رہے اور اس کی نشاندہی کی جائے تو وہ بھی گناہ نہیں ہے۔

لیکن ٹرولنگ اور ہراسانی کی مہم میں سیاسی جماعتوں کے آفیشل اکاؤنٹس کا بھی حصہ بننا اس بات کو منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس مہم کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا اور ٹرولنگ

کہا جاتا ہے کہ کمرے میں سب سے بلند آواز باقی آوازوں کو دبا دیتی ہے۔ اور یہی طریقۂ کار سوشل میڈیا پر اختیار کیا جا رہا ہے۔ کوئی آواز اگر حکومتی کاموں پر تنقید کے لیے بلند کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ جواز اور حقائق پر نہیں بلکہ غیر مہذب اور ہراسانی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔

یہ رویہ صرف پاکستان تحریک انصاف کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ حکمتِ عملی پاکستان مسلم لیگ ن بھی استعمال کرتی ہے۔ اگر سرکاری پروٹوکول پر سوال اٹھایا جائے تو ان کے قائد جو آپ کو فالو کر رہے ہوتے ہیں وہ ان فولو کر دیتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ عدم برداشت۔ اور یہی عدم برداشت سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں پھیل رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ زہریلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔

نیم گمنام ٹرولر

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر نیم گمنامی اور عدم احتساب کے باعث لوگ زیادہ سے زیادہ ٹرولنگ کرتے ہیں۔ لوگ اپنے غیر مہذب رویوں میں زیادہ دلیر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ نہ تو احتساب ہے اور نہ ہی شناخت۔

پاکستان تحریک انصاف نے 22 اگست 2018 میں ایک اچھا قدم لیا اور اعلان کیا کہ سوشل میڈیا پر غلیظ زبان کے استعمال کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ اکاؤنٹس جو غلیظ زبان استعمال کریں گے ان کو بلاک کر دیا جائے گا۔

وقت تو خیر بہت پہلے آ چکا تھا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی کہ معاشرے میں عدم برداشت کو مزید پھیلنے سے روکا جائے اور کم از کم اس کا آغاز تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں سے کریں۔  

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ