گوادر دھرنا: پانچ ہزار سے زائد پولیس اہلکار کیوں تعینات کیے جا رہے ہیں؟

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ایس ایس پی گوادر ان کے اہلکاروں کے کمانڈر ہوں گے جب کہ ان اہلکاروں کے ہمراہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز بھی ہوں گے۔

گوادر حق دو تحریک کے مطالبات میں سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے ذریعے شکار کی پابندی، مقامی ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ آنے جانے دینےاور گوادر میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کا مطالبہ شامل ہے(تصویر: جاوید احمد بلوچ)

گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے تحت شہریوں کا مطالبات کے حق میں احتجاج اور دھرنا 19ویں روز بھی جاری ہے جب کہ امن وامان اور دھرنے کے حوالےسے حالات کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی مشیر داخلہ میر ضیا لانگو بھی گوادر پہنچ چکے ہیں۔

دوسری جانب انسپکٹر جنرل آف پولیس بلوچستان کی طرف سے جاری کردہ ایک خط میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 5500 پولیس اہلکاروں کو گوادر بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 

خط میں ان اہلکاروں کو امن وامان برقرار رکھنے اور فسادات روکنے کے عنوان کے تحت بھیجنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 

ان اہلکاروں میں بلوچستان کانسٹیلبری سے 2200، جعفرآباد سے 1300، مستونگ سے 118، زیارت سے 105، پنجگور سے 250، خضدار سے 114، تربت سے 400، نصیرآباد سے 400، قلات سے 30، کچھی سے 43، خاران سے 40، سبی سے 250، لسبیلہ سے 250 پولیس اہلکار شامل ہیں۔ 

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ایس ایس پی گوادر ان کے اہلکاروں کے کمانڈر ہوں گے جب کہ ان اہلکاروں کے ہمراہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز بھی ہوں گے۔

یہ خط ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے معروف صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ ’بلوچستان کانسٹیبلری اورپولیس کے 5500 اہلکاروں کو گوادر جانے کا حکم جہاں گوادر کوحق دو تحریک کا دھرنا جاری ہے۔‘

حامد میر مزید لکھتے ہیں کہ ’ایک طرف گوادر تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ مذاکرات اور دوسری طرف ریاستی طاقت کے استعمال کی تیاریاں، کھلا تضاد؟‘

اس پر مولانا ہدایت الرحمان نے بھی حامد میر کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایک طرف مذاکرات اور مثبت پیش رفت کی باتیں، دوسری طرف طاقت کے استعمال کی تیاری، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبے میں حکومت اور اختیار کس کے پاس ہے۔‘

مولانا ہدایت الرحمان مزید لکھتے ہیں کہ ’کئی مہینوں کی جدوجہد میں ہم بالکل پرامن ہیں۔ آئین اور قانون کےدائرے میں ہیں۔ طاقت کے استعمال سے حالات کی خرابی کی ذمہ دار حکومت کی ہوگی۔‘

ادھر صوبائی وزیر ظہور بلیدی جنہوں نے دھرنے کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان سے متعدد مرتبہ مذاکرات کیے، ان سے اس خط کےحوالے سےموقف جاننےکےلیے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے واٹس ایپ پر سوال دیکھ کر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ 

تاہم ظہور بلیدی نے ٹوئٹر پرایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مولانا ہدایت الرحمان اور ان کی ٹیم سے بامعنی مذاکرات ہوئے اور ان کے تمام مطالبات پر پیش رفت کے باعث مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوئی۔‘

ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انشااللہ جلد ہی گوادر دھرنے پر مثبت نتیجہ ملے گا۔ جو عوام کے اور بلوچستان کے حق میں ہوگا۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو امین۔‘

ادھر دھرنے کے مرکزی رہنما مولانا ہدایت الرحمان نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ اب مذاکرات صرف وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، چیف سیکرٹری بلوچستان اور کور کمانڈر سے ہی ہوں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھرنے کے منتظمین کی کال پر کل کوسٹل ہائی وے کو بھی مختلف مقامات پربند کر دیا گیا تھا جب کہ گوادر میں شٹرڈاؤن ہڑتال رہی اورماڑہ، پسنی اور جیونی میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ 

گوادر حق دو تحریک کے مطالبات میں سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے ذریعے شکار کی پابندی، مقامی ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ آنے جانے دینےاور گوادر میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کا مطالبہ شامل ہے۔ 

اس کےعلاوہ دیگر مطالبات میں ایکسپریس وے کے متاثرین کو مناسب معاوضہ دینا، پاک ایران بارڈر کی تجارت پرعائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ 

گوادر شہر میں شراب خانوں کی بندش بھی دھرنے کا مطالبہ ہے۔ دھرنے کے رہنماؤں سے مذاکرات میں حکومتی وفد نے بعض مطالبات کے حوالے سے عمل درآمد کےلیے مولانا ہدایت کو نوٹیفکیشن بھی دیے گئے ہیں۔ 

یاد رہے کہ گوادر میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کا مرکز ہے اور حکومت نے یہاں پر مستقبل میں بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ 

19 دن سے گوادر میں جاری اس دھرنے کو قومی میڈیا کے علاوہ عالمی سطح پر بھی میڈیا کے ادارے کوریج دے رہے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان