’قاضی اجمل کو رات میں جہاز اڑانے پر مجبور کیا گیا‘

کنڈ ملیر میں جائروکاپٹر حادثے میں مارے جانے والے پائلٹ قاضی اجمل کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا جہاز دکھانے کے لیے بلایا گیا تھا اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔

قاضی اجمل کے عزیز قاضی ظفر کے مطابق جائروکاپٹر کی ٹریننگ قاضی اجمل نے سعودی عرب میں جدہ ایوی ایشن کلب سے لی (تصویر:  قاضی اجمل فیملی)

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے تین روز سے لاپتہ انسٹرکٹر پائلٹ قاضی اجمل کی لاش ان کے جہاز سمیت بلوچستان کے ضلع آواران کے پہاڑی سلسلے پر مل گئی ہے۔

لسبیلہ میں پولیس کے مطابق ان کی موت جہاز کے ضلع آواران کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ سے ٹکرانے سے واقع ہوئی۔

پائلٹ کے خاندان کے مطابق وہ اپنے ہیلی کاپٹر ’جائروکاپٹر‘ پر کراچی سے پرواز کر کے بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے تھے، اور انہیں کنڈ ملیر میں کسی طاہر نامی شخص نے بلایا تھا۔

خاندان سے رابطہ منقطع ہونے پر ان کے اہل خانہ نے تین دن قبل سوشل میڈیا پر ایک اپیل کی تھی کہ ’قاضی فیملی کے انٹرنیشنل لائسنس یافتہ انسٹرکٹر پائلٹ قاضی اجمل سندھ اور بلوچستان کے اضلاع کنڈ ملیر کے علاقے میں اپنے جائروکاپٹر کے ساتھ رات کے وقت دوران پرواز تین دن سے لاپتہ ہیں۔‘

انہوں نے عوام، حکومت اور اعلیٰ حکام سے قاضی اجمل کو تلاش کرنے میں مدد کی اپیل کی تھی۔

قاضی اجمل کے چچا قاضی طفیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی میت خاندان کے حوالے کردی گئی ہے، اور آبائی علاقے میں تدفین کردی گئی ہے۔

قاضی طفیل نے کہا: ’قاضی اجمل تین دن سے لاپتہ تھے، جن کو وائلڈ لائف والوں نے تلاش کیا۔ ان کے جہاز کا پہاڑ سے ٹکرانے کے باعث حادثہ پیش آیا، جس سے جہاز تباہ ہو گیا اور ان کی موت واقع ہو گئی۔‘

ضلع لسبیلہ کے ایس ایس پی ایوب اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد پاکستانی فوج، بحریہ اور دیگر ادارے انہیں تلاش کررہے تھے۔

انہوں نے کہا: ’آج وائلڈ لائف والوں کو لاش ملی جو آواران کے پہاڑی علاقوں میں تھی، جہاں ان کا جہاز کریش ہوا تھا۔‘

ان کے مطابق لاش کو بعد میں اہل خانہ کے حوالے کرکے آبائی علاقے خیبر پختونخوا منتقل کردیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں قاضی اجمل کے والد قاضی سجاد خان، چچا قاضی طفیل اور ماموں ارباب فاروق جان نے بتایا کہ قاضی اجمل کنڈ ملیر کے علاقے میں اپنے جائروکاپٹر کے ساتھ شام کے وقت دوران پرواز تین دن سے لاپتہ تھے۔

اہل خانہ کے مطابق انہیں ڈھونڈنے کی کافی کوششیں کی گئیں مگر پتہ معلوم نہ ہوسکا اور پھر ان کی کریش میں ہلاکت کی خبر ملی۔

ان کے ماموں ارباب فاروق جان کا کہنا تھا قاضی اجمل کو ایک شخص نے رات نو بجے جائروکاپٹر اڑانے پر مجبور کیا۔ ان کے بقول جس شخص نے انہیں بلایا تھا اس نے ان سے کہا کہ ’ہم یہاں ہنگول نیشنل پارک سے نکلتے ہیں اور آپ جہاز اڑا کر کنڈ ملیر پہنچیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم تمام وفاقی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں کہ ان کو کیوں رات کے وقت جہاز اڑانے پر مجبور کیا گیا۔‘ 

حادثہ کیسے پیش آیا؟

جان سے جانے والے پائلٹ کے کزن قاضی ظفر کے مطابق قاضی اجمل کا جہاز کنڈ ملیر میں کریش ہوا جہاں ایک ہوا بازی کا کلب بھی ہے، جس کے مالک نے ان کو بلایا تھا۔

قاضی ظفر کا کہنا تھا کہ تھا کلب، جس کا نام نہیں بتایا گیا، کے مالک نے اجمل سے کہا تھا کہ وہ ان کا جہاز دیکھنا چاہتے ہیں، جس کے بعد وہ خریدنے یا اپنے کسی رکن کو تربیت دلوانے کا فیصلہ کریں گے۔ 

قاضی ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قاضی اجمل اس جہاز کو 50 ،60 کلو میٹر کے فاصلے تک اڑا کر واپس لے آتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ شخص نے اجمل کو مجبور کیا کہ وہ رات کے وقت جہاز چلائیں اور اجمل نے انہیں بتایا تھا کہ یہ جہاز رات کے لیے نہیں بنا۔

قاضی ظفر نے بتایا: ’قاضی اجمل نے رات نو بجے کے قریب فلائی کیا اور انہوں نے جو آخری کال کی تھی وہ 16 سو فٹ کی بلندی پر کی تھی کہ انہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے، جس کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ رابطہ منقطع ہونے پر ان کی تلاش شروع کر دی گئی اور اب تین دن کے بعد ان کی لاش ملی ہے۔‘

 قاضی ظفر کا کہنا تھا کہ ’جہاز میں کوئی خرابی نہیں تھی۔‘

قاضی فیملی کون ہے؟

قاضی ظفر کے مطابق ان کا خاندان فلائنگ کے حوالے سے معروف ہے، جس میں بین الاقوامی لائسنس یافتہ پائلٹس شامل ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا: ’یہ سلسلہ میرے والد قاضی فرہاد، تایا قاضی سجاد اور ماموں قاضی جمشید نے 1976 سے شروع کیا تھا۔ میرے والد قاضی فرہاد بھی ایک فضائی حادثے کا شکارہوئے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ اجمل نے جائروکاپٹر چلانے کی ٹریننگ سعودی عرب میں جدہ ایوی ایشن کلب سے لی تھی جہاں وہ ملازمت کرتے تھے۔ ’وہاں انہوں نے ایک انگریز ٹرینر سے اس ہیلی کاپڑ کو اڑانے کی تربیت لی تھی اور وہ اسے تین سال تک اڑاتے رہے۔ وہ چار ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان