گجرات فسادات: ذکیہ جعفری شوہر کے لیے اب بھی انصاف کی منتظر

28 فروری 2002 کو ایک ہندو ہجوم ذکیہ جعفری کے 72 سالہ شوہر احسان جعفری کو گجرات کی گلبرگ سوسائٹی میں واقع ان کے عالیشان بنگلے سے گھسیٹ کر باہر لے گیا اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں تشدد کرکے قتل کر دیا۔

ذکیہ جعفری 2013 میں صحافیوں سے ایک ملاقات کے بعد(فائل تصویر: اے ایف پی)

28 فروری 2002 ذکیہ جعفری کے لیے بھیانک دن تھا جب ان کی زندگی پوری طرح بدل گئی۔

ایک ہندو ہجوم ان کے 72 سالہ شوہر احسان جعفری، جو کانگریس پارٹی کے سیاست دان بھی تھے، کو گجرات کی گلبرگ سوسائٹی میں واقع ان کے عالیشان بنگلے سے گھسیٹ کر باہر لے گیا اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں تشدد کر کے قتل کر دیا۔

اس وقت ذکیہ جعفری کی عمر 64 سال تھی، جو اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔

ایک دن پہلے سابرمتی ایکسپریس میں 59 ہندو یاتریوں کے مارے جانے کے بعد گجرات ریاست میں لاک ڈاؤن تھا۔ اس لاک ڈاؤن کی کال انتہا پرست ہندو گروپ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے دی تھی۔

سابرمتی ایکسپریس میں ہلاک ہونے والے 59 افراد زیادہ تر ہندو تنظیموں کے رضاکار تھے جو گجرات کے گودھرا سٹیشن پر کھڑی ٹرین میں آتشزدگی کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ اس آتشزدگی کا الزام مسلمانوں کے ایک مشتبہ ہجوم پر لگایا جاتا ہے، حالانکہ آگ کس نے لگائی تھی اس پر اب بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

اس واقعے نے ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر تشدد کو ہوا دی جس کے اتنے گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوئے کہ بھارت کی اکثریتی ہندو اور اقلیتی مسلم برادریوں کے درمیان تعلقات کو ہمیشہ کے لیے بدل گئے۔

اس دن کے اختتام تک ذکیہ جعفری نے ایک پرتشدد ہجوم کو نہ صرف اپنے شوہر کو قتل کرتے بلکہ انہیں اپنے پڑوس میں توڑ پھوڑ اور اپنے اس گھر کو نذر آتش ہوتے ہوئے دیکھا، جہاں وہ 30 سالوں سے مقیم تھیں۔

ذکیہ اور ان کے بہت سے پڑوسیوں کو ایک ایسی ریاست میں اپنی جان بچانے کے لیے ننگے پاؤں بھاگنے پر مجبور کیا گیا جو فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا تھا۔

اس ایک روز میں ریاست بھر میں 1,180 کے قریب اموات ہوئیں۔

اس قتل عام کے تقریباً دو دہائیوں بعد 83 سالہ ذکیہ جعفری نے اس سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کے نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے، جس نے گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سمیت دیگر اعلیٰ ریاستی شخصیات کو کلین چٹ دی تھی۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ گجرات کے سیاسی رہنماؤں نے اس وقت فسادات برپا کرنے کی اجازت دے کر سازش کی تاکہ ہندو سابرمتی ایکسپریس کی ہلاکتوں پر اپنا غصہ نکال سکیں۔ مودی اور حکام نے ہمیشہ ان الزمات کو مسترد کیا ہے۔

اپنی درخواست میں ذکیہ جعفری نے استدلال پیش کیا کہ 2012 میں پیش کی گئی ایس آئی ٹی رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں اہم شواہد کو نظر انداز کیا گیا تھا۔

اس معاملے کی دوسری درخواست گزار اور غیرسرکاری تنظیم ’سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس‘ (سی جے پی) کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں ’گجرات میں 2002 کے قتل عام کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالی جانی چاہیے، جو اس وقت اقتدار میں تھے۔۔۔ وہ لوگ جو تشدد کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو۔‘

ذکیہ جعفری نے اپنے وکیل کپل سبل کے توسط سے دلیل پیش کی کہ درخواست کا مقصد کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ فرقہ وارانہ تشدد کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔

عدالتی کارروائی پر نظر رکھنے والی بھارتی نیوز ویب سائٹ ’لائیو لا‘  کے مطابق سبل نے عدالت میں کہا: ’فرقہ وارانہ تشدد دراصل آتش فشاں سے پھوٹنے والے لاوے کی طرح ہے، چاہیے یہ کسی بھی برادری کی جانب سے کیا جائے۔ یہ ادارہ جاتی تشدد ہے۔ میں اے یا بی پر الزام نہیں لگانا چاہتا۔ دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘

سبل نے مزید کہا: ’اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ ہمارا مقدمہ اسی بارے میں ہے۔ اگر کوئی تحقیقات نہیں ہوتیں تو سپریم کورٹ کی جانب سے ایس آئی ٹی کی تشکیل کا مقصد کیا تھا؟‘

ذکیہ جعفری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایس آئی ٹی رپورٹ کی دوبارہ جانچ کی ضرورت پر دلائل سننا ہی بذات خود ایک فتح ہے۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مجھے بھارتی عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔‘

آئندہ سال فروری میں ان کے شوہر کی 20 ویں برسی منائی جائے گی جب کہ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے عدالتوں کے چکر لگاتی آئی ہیں۔

آٹھ جون 2006 کو جعفری کے وکلا نے 63 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر تیار کی جس میں مودی اور کئی وزرا، ان کی حکومت کے بیوروکریٹس، سینیئر پولیس افسران اور دائیں بازو کے گروپوں کے رہنماؤں کے نام شامل تھے۔

ذکیہ کے بڑے بیٹے تنویر جعفری کا کہنا ہے کہ 04-2003 میں سینیئر سرکاری افسران کی جانب سے ناناوتی کمیشن کو دیے گئے حلف ناموں کے بارے میں خبریں اخبارات میں آنا شروع ہوئیں، جہاں انہوں نے حکومت کی طرف سے ایک وسیع تر سازش کا اشارہ دیا۔

ناناوتی کمیشن کو گجرات حکومت نے سابرمتی ایکسپریس قتل عام اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا۔

تنویر کا کہنا ہے کہ ’جب ہم میری والدہ کی طرف سے پیٹیشن دائر کر رہے تھے تو بہت سے لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ،’کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ان لوگوں کے نام لینا چاہتی ہیں؟‘۔ لیکن جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا اور ان اہلکاروں کے حلف ناموں کی بنیاد پر بھی وہ اس بارے میں ہمیشہ سے بہت واضح تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ اعلی عہدیدار ہیں جنہوں نے اپنی ڈیوٹی کر کے سچ کو ریکارڈ کیا ہے۔ ہمیں ان معلومات کو اپنی لڑائی میں ضرور استعمال کرنا چاہیے۔‘

لیکن ان کی ایف آئی آر پر کوئی ردعمل نہ آیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کریں، لیکن انہوں نے بھی اس سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد انہوں نے اپنا رخ سپریم کورٹ کی طرف کر لیا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 2009 میں ایک حکم جاری کیا تھا اور فسادات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی سے کہا تھا کہ وہ جعفری کی درخواست میں جمع کروائے گئے شواہد کا بھی جائزہ لے۔

درخواست میں ان کے شوہر کی موت کے بارے میں بذات خود عینی شاہد ہونے کا بیان اور ساتھ ہی اعلیٰ پولیس عہدیداروں کی جانب سے ناناوتی کمیشن کو بھیجے گئے حلف نامے بھی شامل ہیں۔

بعد کے برسوں میں کمیشن اور ایس آئی ٹی دونوں نے جعفری کی درخواست میں فراہم کردہ شواہد کو مسترد کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گجرات حکومت کی طرف سے کوئی وسیع تر سازش نہیں کی گئی۔

تنویر نے کہا کہ:’ہم نے رپورٹ کو ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کورٹ میں بھی چیلنج کیا لیکن دونوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ان کے پاس رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم موجودہ درخواست کے ساتھ 2018 میں دوبارہ سپریم کورٹ گئے، کیونکہ ہم اتنے ثبوتوں کا اور کیا کرتے۔ کیا ہم اسے پھینک دیتے ؟‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاستی حکومت کا مقابلہ کرنے اور ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کا نام لینے میں خوف محسوس کرتی ہیں تو انہوں نے کہا: ’میں کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اور میں سچ جانتی ہوں۔ میں دیکھ رہی تھی جب انہوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کردیا۔ اس سے مجھے لڑنے کی ہمت ملتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انہیں تشدد کی نوعیت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا، جو انہوں نے اس دن دیکھا تھا۔

’شٹ ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا لہذا ہم گھر پر تھے۔ پڑوسی اور میرے شوہر شٹ ڈاؤن کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔

لیکن جلد ہی یہ بدل گیا، گلبرگ سوسائٹی میں ہزاروں افراد کا ایک پرتشدد ہجوم جمع ہوا اور لوگ چھپنے کے لیے بھاگ رہے تھے۔

ذکیہ جعفری کہتی ہیں کہ ’ہمارا گھر بھرا ہوا تھا۔ تقریباً 200 افراد اس امید پر جمع ہوئے تھے کہ اگر وہ احسان جعفری کے گھر میں رہے تو انہیں بچا لیا جائے گا۔

’لوگ ہمارے گھر آتے رہے اور میرے شوہر نے کسی کو نہیں روکا۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔‘

افراتفری پھیل گئی اور ہجوم ان کے دروازے تک پہنچ گیا۔ جعفری اور تقریباً 50 دیگر افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے، کو ان کے شوہر نے چھپانے کے لیے اوپر بھیجا تھا۔

انہوں نے کہا: ’میں نے یہ سب پہلی منزل سے دیکھا جہاں میں چھپی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں اپنے شوہر کو گھر سے باہر گھسیٹتے اور بے دردی سے تشدد کرتے دیکھا۔ انہوں نے اسے برہنہ کیا، اس کی انگلیاں، بازو، ٹانگیں کاٹیں، اس کا گلا کاٹ دیا اور اسے ہاؤسنگ سوسائٹی کے چوراہے پر لے گئے اور پھر اسے زندہ جلا دیا۔ میں اس دن کو کبھی نہیں بھولوں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وہی شام تھی جب جعفری اور دیگر لوگ، جو چھپے ہوئے تھے گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’گراؤنڈ فلور جل گیا تھا۔ وہاں موجود تمام لوگ مارے گئے۔ ہم صرف اس وجہ سے بچ گئے کہ ہم اوپر تھے۔‘

اپنے تین بچوں کے ساتھ شہر سے باہر، وہ اس رات تنہا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ان کی زندگی میں کیا ہوگیا۔

ذکیہ جعفری  کا کہنا ہے کہ: ’جس شخص کو میرے شوہر جانتے تھے انہوں نے ہمیں لینے کے لیے گلبرگ میں ایک ٹیمپو (چھوٹا سامان کیریئر) بھیجا۔ ہم سب جو پہلی منزل پر تھے سوار ہوگئے اور ہمیں پولیس سٹیشن کے قریب ایک کھلی سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں مزید آگے لے جانا بہت خطرناک ہے۔‘

’ہم سب دوپہر سے بغیر کھانے یا پانی کے وہاں رہے، یہاں تک کہ تین یا چار لڑکے جو میرے شوہر کو جانتے تھے وہاں آئے اور ہمیں ایک کھلے میدان میں لے گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وہاں ہم رات کو دوسروں کے ساتھ رہے جنہوں نے اس دن ہونے والے قتل عام میں اپنے گھر اور خاندان کھو دیئے تھے۔‘

اگلے دن ہی ان کے خاندانی دوست نے انہیں ڈھونڈ لیا اور انہیں اپنے گھر لے گیا۔ ’انہوں نے اگلے دن مجھے ان کے گھر سے فون کیا اور مجھے مطلع کیا کہ وہ زندہ ہے۔ اس سے پہلے مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔‘

تنویر جو سورت میں رہتے تھے، اگلے دن احمد آباد آئے اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے بیٹے کی مقروض ہوں۔ میری دیکھ بھال کی ہے اور انصاف کی جنگ میں ہر قدم پر میرے ساتھ رہے ہیں۔‘

ذکیہ جعفری کو سی جے پی جیسے کئی غیر سرکاری گروپوں میں حمایت حاصل ہے، جنہوں نے اپنی طویل قانونی لڑائی کے دوران ان کی حمایت کی ہے۔

ان کی حمایت کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کو اپنی قانونی لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جو کہ دھمکیوں کی ایک قسم ہے، ان پر الزام لگائے جا چکے ہیں۔

سی جے پی کی سیکرٹری تیستا سیتلواڈ کو اپنی تنظیم کے ذریعے غبن اور زرمبادلہ کے قواعد کی خلاف ورزی کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔

ناناوتی کمیشن میں گواہی دینے والوں اور متعدد پولیس افسران، جن کے حلف نامے ان کی درخواست میں استعمال کیے گئے تھے، پر بھی متعدد قانونی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

تاہم ذکیہ جعفری بدستور بے خوف ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’وہ مجھ سے کچھ نہیں چھین سکتے۔ میں پہلے ہی سب کچھ کھو چکی ہوں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا