چینی اولمپکس کا امریکی بائیکاٹ: وجہ اویغور مسلمان؟

چین میں ہونے والی سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کے مطالبے کئی ہفتوں سے سامنے آ رہے تھے اور اب امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اپنا وفد نہیں بھیجے گا۔

بیجنگ میں اولمپکس کی مشعل روشن کی جا رہی ہے (تصویر: روئٹرز)

انسانی حقوق کے معاملات کے حوالے سے چین کی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے لیے کوئی سرکاری وفد نہیں بھیجے گی۔ 

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ٹیم امریکہ کے کھلاڑی اب بھی کھیلوں میں موجود ہوں گے لیکن کوئی باضابطہ سرکاری وفد نہیں بھیجا جائے گا۔

امریکہ کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کئی ماہ سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ بائیڈن انتظامیہ سرمائی اولمپکس کو چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنے کے لیے دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کرے گی۔ 

چین میں کھیلوں کے بائیکاٹ کے مطالبات حالیہ ہفتوں میں چینی ٹینس سٹار پینگ شوائی کے حوالے سے تنازعے کے ساتھ مزید بڑھ گئے ہیں۔ شوائی نے ایک چینی سیاست دان پر جنسی زیادتی کے الزامات لگائے تھے جس کے بعد چینی حکومت نے ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کو سنسر کیا اور سرکاری مالی اعانت سے چلنے والے ایک میڈیا آؤٹ لیٹ نے مبینہ طور پر شوائی کا لکھا ہوا ایک نوٹ بھی شائع کیا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ان کے الزامات جھوٹے ہیں۔

پینگ شوائی کیس اور دیگر معاملات کس طرح امریکہ اور چین کے درمیان دراڑ میں اضافہ کر رہے ہیں، ذیل میں اس پر نظر ڈالی جارہی ہے۔

اولمپکس کمیٹی پر دباؤ

سیاسی اختلافات سے قطع نظر دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو متحد کرنے کے عزم کے مقصد کا دعویٰ کرنے کے باوجود اولمپک کھیلوں کے دیرینہ منتظمین انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (آئی او سی) کو ماضی میں آمرانہ جھکاؤ رکھنے والی حکومتوں کو شرکت کی دعوت دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 حالیہ برسوں میں امریکہ نے کھیلوں میں شرکت نہ کرنے کا ایسا فیصلہ کبھی نہیں کیا۔ اس سے قبل اوباما انتظامیہ نے 2014 میں روس میں ہونے کھیلوں کے دوران اعلیٰ حکام کو نہیں بھیجا تھا لیکن ان کے متبادل وفد بھیجا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینگ شوائی کے حوالے سے صورت حال نے آئی او سی کی طویل عرصے سے سراہی جانے والی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے کمیٹی پر الزام لگایا ہے کہ وہ چین کی اس بات پر یقین کر رہی ہے کہ پینگ شوائی محفوظ ہیں اور حکومت کی طرف سے پریشان نہیں کی جارہی ہیں۔ جبکہ آئی او سی کا اصرار ہے کہ پینگ نے آئی او سی حکام کے ساتھ متعدد کالز پر اس کی نشاندہی کی ہے۔

این بی سی نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں خواتین کے عالمی مسائل کے بارے میں ایک سابق امریکی سفیر کیلی کری نے پینگ شوائی کے متعلق صورت حال پر کہا کہ ’یہ روایتی آئی او سی تھی جس نے تمام شواہد کے باوجود چینی کمیونسٹ پارٹی کی بات کو بلا تحقیق درست مان لیا۔‘

سنکیانگ اور اویغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک

بائیڈن انتظامیہ چینی حکومت کی جانب سے اویغور مسلم اقلیت کے ساتھ برتاؤ پر بڑی نقاد کے طور پر سامنے آئی ہے۔ خاص طور پر سنکیانگ کے علاقے میں جہاں بین الاقوامی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا ہے کہ شہری مسلسل نگرانی میں رہتے ہیں۔

اس سال کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نےاس خطے میں تیار ہونے والی بعض اشیا پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے متعلق دفتر خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ یہ سامان جبری مشقت کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔

جولائی میں امریکی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ’سنکیانگ میں حکومت سمگلر ہے۔ حکام جسمانی تشدد، زبردستی منشیات کے استعمال، جسمانی اور جنسی استحصال اور تشدد کی دھمکیوں کا استعمال کرتے ہوئے قیدیوں کو ملحقہ یا آف سائٹ فیکٹریوں یا ورک سائٹس میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جہاں کپڑے، جوتے، قالین، دھاگے، غذائی مصنوعات، عمارتی مواد، شمسی توانائی کے آلات کے لیے مواد اور دیگر قابل تجدید توانائی کے اجزا، گھر میں استعمال ہونے والے الیکٹرانکس، بستر، بالوں کی مصنوعات، صفائی کی مصنوعات، ذاتی حفاظتی آلات، چہرے کے ماسک، کیمیکلز، دوا سازی اور دیگر سامان تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سامان دنیا بھر میں گھروں اور دفاتر میں پایا جانے لگا ہے۔‘

جو بائیڈن نے یہ مسئلہ چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ اٹھایا ہے جیسا کہ حال ہی میں پچھلے ماہ ہوا تھا۔ کانگریس ایسی قانون سازی پر بھی غور کر رہی ہے جو سنکیانگ خطے سے درآمدات کو مزید محدود کرے گی۔

ساکی نے پیر کو اس معاملے پر اپنے مختصر بیان کے دوران خاص طور پر سنکیانگ کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ خطے میں مبینہ طور پر ہونے والے ’مظالم‘ اور ’نسل کشی‘ نے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کو ہوا دی۔

تائیوان کی پریشانیاں برقرار

بائیڈن انتظامیہ کے پیر کے بیان میں تائیوان کے معاملے پر کچھ نہیں کہا گیا۔ تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جس پر چین ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ 

 اگرچہ اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا لیکن بائیڈن کی صدارت کے پہلے سال کے دوران یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے کیونکہ چین پر گہری نظر رکھنے والوں، خاص طور پر دائیں بازو والوں، نے جزیرے پر چینی حملے کے امکانات کے بارے میں تیزی سے خبردار کیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے رواں سال کے اوائل میں تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے دی تھی، جس سے چین مشتعل ہوا تھا اور صدر نے امریکی حکام کو چین کی مخالفت کے باوجود تائیوان کے حکام کے ساتھ اپنے سرکاری سفارتی تعلقات بڑھانے کی اجازت دے دی ہے۔

رواں سال اگست میں جو بائیڈن نے غلطی سے کہا تھا کہ نیٹو چارٹر کے آرٹیکل پانچ کے تحت امریکہ کا تائیوان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے لیکن امریکی دفتر خارجہ نے فوری طور پر اسے واپس لے لیا تھا۔

اگرچہ تائیوان کے معاملے پر پیر کے اعلان میں کوئی بات نہیں ہوئی، مگر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان اس مسئلے پر لفظی جنگ کئی ماہ سے جاری ہے، جس سے تاثر ملتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات کشیدہ ہیں۔ 

وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اگست میں بیجنگ پر زور دیا تھا کہ وہ تائیوان پر ’فوجی، سفارتی اور معاشی دباؤ ختم کرے اور معنی خیز بات چیت میں شامل ہو۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ