بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کا ایک چھوٹا سا ہال سینکڑوں قدیم گھڑیوں کی ٹک ٹک سے گونج رہا ہے جہاں کلاک کلکٹر گل کاکڑ اپنا زیادہ تر وقت ان کی دیکھ بھال میں صرف کرتے ہیں۔
ان کے اس نایاب خزانے میں نازک کلائی کی گھڑیاں، جیب میں رکھنے والی وزنی گھڑیاں اور ٹوٹے ہوئے ٹیبل کلاک کے ماڈلز زمین پر بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے ہیں۔
وال کلاکس ان کے علاوہ ہیں جن کے پینڈولم ہر گھنٹے کے گزرنے کی دُہائی دیتے ہیں۔
44 سالہ گل کاکڑ نے جو ایک پولیس افسر ہیں اپنے کلیکشن کے دورے کے دوران اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ان گھڑیوں کی زبان جانتے ہیں۔
ان کے بقول: ’وہ (گھڑیاں) مجھے اپنے مسائل بتاتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں۔‘
گل کاکڑ کی اس کلیکشن میں سے کچھ گھڑیاں 1850 کی ہیں جو شہر کے پولیس ہیڈکوارٹر کے احاطے میں رکھی ہوئی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ اس کلیکشن کو عدم استحکام کے شکار صوبے کے درالحکومت میں واقع اس عمارت کی بھاری دروازوں اور دھماکوں سے محفوظ رکھنے والی اونچی کنکریٹ کی دیواروں کے پیچھے رکھا گیا ہے۔
سخت سکیورٹی کے باعث کم ہی لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ گل کاکڑ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے میوزیم کی تعریف کرنے والے کچھ مزید پرستار ملے ہیں لیکن یہاں کم ہی لوگ آتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’کوئٹہ میں لوگ اس طرح کی چیزوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے۔‘
گل کاکڑ کا یہ جنون کئی دہائیوں پہلے شروع ہوا جب ان کی دو خاندانی گھڑیاں خراب ہو گئیں اور انہیں مرمت کے لیے کاریگر کے پاس بھیجا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے ان میں دلچسپی لینا شروع کی پھر مجھے خیال آیا کہ مجھے مزید گھڑیاں حاصل کرنی چاہییں۔‘
جلد ہی ان کی دلجمعی کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے اور آج ان کا میوزیم قدیم گھڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔
اس کے لیے انہوں نے 18 سال سے زیادہ انٹرنیٹ پر تلاش جاری رکھی اور انہوں نے بیرون ملک مقیم اپنے دوستوں کو سیکنڈ ہینڈ پیس خریدنے اور انہیں پاکستان بھیجنے پر بھی آمادہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہیں اب یہ یاد نہیں کہ وہ اس کلیکشن پر کتنی رقم خرچ کر چکے ہیں لیکن خاندانی زمین سے ہونے والی آمدنی اور پولیس کی تنخواہ کا بڑا حصہ ان گھڑیوں کی خریداری میں چلا جاتا ہے۔
گل کاکڑ نے کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں وہ ان کا خیال رکھیں گے۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کوئی بھی دوسرا رکن ایسا جذبہ نہیں رکھتا اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کے بعد یہ کلیکشن فروخت کر دی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سرکاری یا نجی کمپنی ان کے نام پر میوزیم کو فنڈ دینے کے لیے آگے بڑھے تو وہ اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہیں اب تک ایسی کوئی پیش کش نہیں ملی۔
تمام تر مجموعے کے باوجود وہ اب بھی ایک آخری گھڑی حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ 19ویں صدی کی ایک مشہور گھڑی سے ملتی جلتی ہے جو صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں رکھی گئی ہے۔
یہ گھڑی، جو بعض لوگوں کے نزدیک موجودہ پاکستان میں سب سے قدیم گھڑی ہے۔ 1847 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نوآبادیاتی ایڈمنسٹریٹر جان جیکب نے ہاتھ سے تیار کی تھی۔ ان ہی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا تھا۔
گل کاکڑ نے اس گھڑی کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس گھڑی کا پینڈولم کنویں میں دھنسا ہوا ہے۔
انہوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا لیکن ایک دن اسے پا لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ ’اس گھڑی کے لیے میں اپنا پورا کلیکشن دینے کے لیے تیار ہوں۔‘