معافی کے بعد ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کو ہٹانے کا حکم واپس

سپریم کورٹ نے گٹر باغیچہ اراضی قبضہ کیس کی سماعت کے دوران ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کو فوری ہٹانے کا حکم دیا تھا، جسے ان کی غیر مشروط معافی کے بعد واپس لے لیا گیا۔

مرتضیٰ وہاب کو رواں برس جولائی میں سندھ حکومت کی جانب سے ایڈمنسٹریٹر کراچی تعینات کیا گیا تھا (تصویر:مرتضیٰ وہاب ٹوئٹر اکاؤنٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کو گٹر باغیچہ اراضی قبضہ کیس کی سماعت کے دوران ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کو فوری ہٹانے کا حکم دیا، جسے ان کی معافی کے بعد واپس لے لیا گیا۔

واضح رہے کہ فروری 2021 میں کراچی کے علاقے پرانا گولیمار میں لیاری ٹرانس پارک گٹر باغیچہ کی زمین اور اس کے قریب کے ایم سی آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کی اراضی پر نجی لوگوں کی جانب سے قبضہ کرکے راتوں رات تعمیرات کرنے کے خلاف کمشنر کراچی کے حکم پر پاک کالونی تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد نے اس کیس سے متعلق شنوائی کا آغاز کیا۔

پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی، جہاں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس قاضی محمد امین احمد نے گٹر باغیچہ اراضی قبضے کے معاملے پر مرتضیٰ وہاب کو مخاطب کرکے کہا کہ ’یہ تمام آپ کے پاس امانتیں ہیں، ریاست یہ سب زمین واپس لے گی، ہمارے ذریعے نہیں تو کسی اور کے ذریعے۔ کس نے سوچا کہ رفاعی پلاٹس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں۔ تاقیامت بھی رفاعی پلاٹ رفاعی ہی رہیں گے۔‘

جسٹس قاضی محمد امین نے مزید ریمارکس دیے کہ ’وقت آگیا ہے کہ کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کر دی جائیں، کے ایم سی والوں نے رفاعی پلاٹس بیچ کر خوب مال بنایا، ایک چھوٹے آفس میں بیٹھا افسر وائس رائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے، تمام پارکس بحال کرنا ہوں گے۔‘

جس پر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ’کیا ہم چلے جائیں؟ حکومت چھوڑ دیں؟ اوپن کورٹ میں حکومت کے خلاف بڑی بڑی آبزرویشن پاس کردی جاتی ہیں۔‘

مرتضیٰ وہاب کی بات پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر چپ کریں۔ کیا بات کررہے ہیں۔ آپ یہاں ایڈمنسٹریٹر کے بجائے سیاست دان کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں۔ سیاست نہیں کریں یہاں، گیٹ آؤٹ (چلے جائیں)۔‘

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے فوری ہٹانے اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو فوری طور پر ان کی جگہ دوسرا ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔

تاہم عدالتی کارروائی میں وقفے کے بعد مرتضیٰ وہاب نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ ’وہ غیر مشروط معافی مانگتے ہیں کہ وہ اشتعال میں آگئے تھے‘، جس پر سپریم کورٹ نے ان کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے ایڈمسنٹریٹر کےعہدے کو سیاست سے دور رکھنے کا حکم دیا۔

مرتضیٰ وہاب کو رواں برس جولائی میں سندھ حکومت کی جانب سے ایڈمنسٹریٹر کراچی تعینات کیا گیا تھا، جس پرسندھ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اعتراض بھی اٹھایا گیا تھا۔

مرتضیٰ وہاب کو پہلی بار اپریل 2015 میں سندھ کابینہ میں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے قانون کے طور پر شامل کیا گیا۔ بعد میں انہیں صوبائی وزیر کا رتبہ بھی دے دیا گیا۔ پھر انہیں پارٹی قیادت نے سینیٹر بنا دیا۔ 2018 کے بعد سے وہ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر رہے اور انہیں صوبائی وزیر کا رتبہ بھی ملا ہوا تھا۔

ایڈمنسٹریٹرز کی تاریخ 

کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) یا بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1972 سے 2002 تک کے 30 سالوں کے دوران کراچی میں دو منتخب میئر، عبدالستار افغانی (1979 سے 1983) اور ڈاکٹر فاروق ستار (1987 سے 1992) رہے ہیں جبکہ ایڈمنسٹریٹر 17 رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان 17 ایڈمنسٹریٹرز میں سے دو پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسران، بریگیڈیئر (ر) پیر بادشاہ گیلانی اور بریگیڈیئر (ر) عبدالحق تھے۔

باقی ایڈمنسٹریٹرز کو سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا تھا، جن میں اپریل 1994 سے اپریل 1996 تک ایڈمنسٹریٹر رہنے والے فہیم الزمان خان کی تعیناتی سابق وزیراعظم پاکستان بےنظیر بھٹو کی سفارش پر ہوئی، جبکہ اگست 1999 سے اکتوبر 1999 تک ایڈمنسٹریٹر رہنے والے مشاہد اللہ خان کی تعیناتی اس وقت ک حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی سفارش پر ہوئی۔ باقی 15 افراد بیوروکریٹ تھے۔ 

2001 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروا کے انتخابات کرائے تو جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما نعمت اللہ خان کراچی میئر بن گئے۔ انہوں نے 2005 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، جس کے بعد ہونے والے الیکشن میں موجودہ پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کراچی کے مئیر بن گئے۔ وہ فروری 2010 تک میئر کراچی رہے۔ 

2010 سے 2016 تک کراچی میں کمشنر نظام متعارف کروایا گیا اور شہر کا انتظام کمشنر کراچی کو دیا گیا۔ 2016 تک ایڈمنسٹریٹر رکھے گئے۔ اس کے بعد 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے وسیم اختر مئیر بن گئے، جو اگست 2020 تک عہدے پر رہے۔ تب سے اب تک کراچی کا انتظام ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے۔ 

عام طور پر گریڈ 20 یا اس سے زیادہ کے افسر کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان