سلیم جاوید: امیتابھ بچن سے زیادہ معاوضہ لینے والے سکرپٹ رائٹرز

’شعلے‘ جیسی فلم دینے والے بالی وڈ کی کہانی نویسوں کی مشہور ترین جوڑی سلیم جاوید نے آج سے 50 سال پہلے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی اس جوڑی کا یہ سفر کن مراحل سے گزرا اور یہ جوڑی ٹوٹی کیسے؟

بالی وڈ کے مشہور کہانی نویس جاوید اختر (بائیں) اور سلیم خان نومبر 2013 کو ممبئی میں ایک تقریب میں اکٹھے ہوئے (اے ایف پی)

یہ جے اور ویرو نہیں جاوید اور سلیم تھے۔ یہ فلم کا اندھیرا اجالا نہیں، زندگی کی دھوپ چھاؤں تھی۔ ذاتی مفادات کی بھٹی میں رشتوں کی ڈور جلنے لگی ’اور پھر چل دیے تم کہاں ہم کہاں۔‘ اس میں کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ یہی انسانی فطرت ہے۔

25 فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کرنے کے بعد پرنس سلیم جان چکے تھے کہ ان کا سکہ یہاں چلنے کا نہیں۔ کتابیں پڑھنے اور ہالی وڈ فلمیں دیکھنے کا شوق گرو دت ٹیم کے رکن ابرار علوی سے قربت کا باعث بنا۔ گرو دت کی موت کے بعد ابرار علوی ہدایت کاری سے دستبردار ہو کر فلم کی کہانی اور مکالمے تک محدود ہو چکے تھے۔ بطور معاون مصنف انہوں نے پرنس سلیم کو پانچ سو ماہوار پر اپنے ساتھ رکھ لیا۔

 ایک دن یہ دونوں باتیں کرتے ہوئے مصنفین کی بدحالی کا رونا رو رہے تھے کہ پرنس سلیم نے کہا: ’ایک وقت آئے گا جب کہانی نویس فلم سٹار کے برابر معاوضہ لے گا۔‘ ابرار علوی ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’دلیپ کمار اس وقت 12 لاکھ لیتے ہیں اور بڑے بڑے مصنفین بمشکل 20 سے 25 ہزار۔ کہانی نویس کو اتنا پیسہ کون دے گا؟ خیر میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ بات کسی اور کے سامنے مت کہنا، لوگ پاگل سمجھیں گے۔‘

پرنس سلیم خاموش ہو گئے۔ اداکاری ترک کرتے ہی انہوں نے پرنس کا سابقہ ہٹا کر خان کا لاحقہ لگا لیا اور پھر جاوید اختر کے ساتھ مل کر یہ دونوں سلیم جاوید ہوگئے۔

1980 کی ایک شام سلیم خان نے ابرار علوی کو فون کیا اور انہیں لگ بھگ 15 برس پرانی بات یاد دلائی۔ سلیم خان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’دراصل میں نے تب غلط کہا تھا کہ کہانی نویس سٹار کے برابر معاوضہ لے گا کیونکہ آج ہم نے ایک فلم کے لیے امیتابھ بچن کے معاوضے سے زیادہ رقم وصول کی ہے۔‘

ابرار علوی یہ سن کر اسی طرح دنگ رہ گئے جیسے میں اور آپ! وہ رقم کتنی اور فلم کون سی تھی؟ یہ تو ہم آگے چل کر بتاتے ہیں۔ پہلے یہ جان لیجیے کہ سلیم جاوید کی جوڑی بنی کیسی اور کیا وجہ تھی کہ ’شعلے،‘ ’دیوار،‘ ’زنجیر‘ اور ’ڈان‘ جیسی فلمیں لکھنے کے بعد یہ دونوں الگ ہو گئے۔

سلیم جاوید کی پہلی ملاقات

ایس ایم ساگر 1966 میں ’سرحدی لٹیرا‘ کے نام سے ایک فلم بنا رہے تھے جس میں سلیم خان کو ایک معمولی سا کردار کرنا تھا۔ جاوید اختر فلم کے عملے میں شامل تھے جن کا کام عکس بندی کے دوران کلپ بورڈ پکڑنا تھا۔ ساگر سرحدی نے ان سے ماہانہ سو روپیہ طے کر رکھا تھا۔ فلم کے دوران انہیں کچھ مکالموں کی ضرورت پڑی جو اسی معاوضے میں جاوید صاحب نے لکھ کر دے دیے۔

’سرحدی لٹیرا‘ کے سیٹ پر ہی دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ سلیم خان کی ابرار علوی اور جاوید اختر کی کیفی اعظمی سے نیاز مندی تھی۔ کیفی صاحب اور ابرار علوی آپس میں بہت اچھے دوست اور پڑوسی تھے۔ اس طرح روزانہ ہی ان سب کا آمنا سامنا ہوتا، جس سے سلیم جاوید کی دوستی مضبوط ہوتی گئی۔

یہ دونوں بمبئی کے علاقے باندرہ میں رہتے تھے۔ جاوید اختر صبح صبح سلیم خان کے پاس چلے جاتے جہاں سے یہ آوارہ گردی کرتے ہوئے کارٹر روڈ سے ساحل سمندر جا پہنچتے۔ دونوں کہانیاں لکھنے لگے تھے لیکن کوئی سنتا نہیں تھا، اس لیے وہاں بیٹھ کر خود ہی ایک دوسرے کو سناتے اور خوب داد دیتے۔

ایک دن وہی ’سرحدی لٹیرا‘ والے ایس ایم ساگر انہیں ملے اور کہا: ’میرے پاس ایک نہایت مختصر کہانی ہے جسے میں فلم میں ڈھالنا چاہتا ہوں۔ کیا تم اس کہانی کو لے کر سکرین پلے بنا سکتے ہو؟‘

پانچ ہزار معاوضے کا سن کر وہ اچھل پڑے۔ اس کام کی تکمیل کے بعد پھر وہی مسئلہ کہ اب کیا کریں۔

اس بار ایس ایم ساگر کے ایک اسسٹنٹ سدھیر بھائی ان کے کام آئے۔ انہوں نے کہا کہ ’سپی فلمز میں ایک سٹوری ڈیپارٹمنٹ بن رہا ہے اگر تم لوگ ادھر چلے جاؤ تو کام مل جائے گا۔‘ انہیں وہاں ساڑھے سات سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا گیا۔

 تب ’انداز‘ (1971) بن رہی تھی جس میں راجیش کھنہ بطور مہمان اداکار شریک تھے۔ انداز کی کہانی اور سکرین پلے سچن بھومک جبکہ مکالمے گلزار نے لکھے۔ سلیم جاوید ان دونوں مصنفین کی ٹیم میں شامل تھے اور کچھ معاونت بھی کی۔ اس دوران سلیم جاوید کی راجیش کھنہ سے ملاقات ہونے لگی جو ان کی باتوں اور کہانیوں سے خاصے متاثر ہوئے۔

ایک دن جنوبی بھارت کے ایک پروڈیوسر دیور صاحب راجیش کھنہ سے ملے اور سکرپٹ کے ساتھ اڑھائی لاکھ روپیہ بھی تھما دیا جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ راجیش کھنہ نے سکرپٹ دیکھتے ہی سر پیٹ لیا۔ وہ سلیم صاحب سے ملے اور بولے: ’دیکھو بھئی میں نے راجندر کمار سے بنگلہ خریدا ہے اس لیے پیسے تو واپس کر نہیں سکتا۔ تم دونوں اگر یہ سکرپٹ ٹھیک کر دو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ دس ہزار روپے اور فلم کریڈٹس میں تمہارا نام دوں گا۔‘

اس طرح ’ہاتھی میرے ساتھی‘ نامی فلم بنی جس میں سکرین پلے رائٹر کے طور پر سلیم جاوید کا نام پہلی مرتبہ سکرین پر نظر آیا۔ ’ہاتھی میرے ساتھی‘ آج سے 50 برس قبل مئی 1971 میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر سال کی کامیاب ترین فلم بن گئی۔ یہ سلیم جاوید کی پہلی کامیابی تھی۔

جب سلیم جاوید نے کھلبلی مچا دی

اگلے برس ان کی تحریر کردہ ’فلم سیتا اور گیتا‘ کو زبردست پذیرائی ملی۔ اب اس جوڑی کا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا۔

’سنگھرش‘ کے دنوں میں جاوید اختر کی شمولیت سے پہلے سلیم خان نے ایک کہانی دھرمیندر کو اڑھائی ہزار میں بیچ رکھی تھی۔ دھرمیندر اپنے بھائی اجیت کی پروڈکشن میں ہدایت کار پرکاش مہرا کے ساتھ یہ فلم بنانا چاہتے تھے۔ اجیت اور مہرا کی آپس میں نہ بن سکی۔ دونوں بھائی پرکاش مہرا کو سکرپٹ بیچ کر چلتے بنے۔

 یہ سکرپٹ تھا ہی بہت غیر روایتی۔ رومانٹک فلموں کے دور میں بالکل غیر رومانوی فلم کرنے کے لیے کوئی اداکار تیار ہی نہیں تھا۔ دیو آنند، راج کمار اور دلیپ کمار کو پیشکش ہوئی لیکن سب نے انکار کر دیا کہ فلم میں رومانس نہیں تو کون دیکھے گا؟

پرکاش مہرا اسی تذبذب میں تھے کہ مرکزی کردار کے لیے اداکار کہاں سے لائیں۔ ایک دن سلیم خان نے انہیں ایک نوجوان سے ملوایا، جسے تب لوگ لمبو اور آج بگ بی یا امیتابھ بچن کے نام سے جانتے ہیں۔

اس وقت تک امیتابھ بچن کی دو فلمیں کامیاب اور 12 ناکام ہو چکی تھیں۔ ’آنند‘ کے علاوہ کامیاب ہونے والی دوسری فلم ’بمبئی ٹو گوا‘ تھی۔ سلیم جاوید بمبئی ٹو گوا دیکھ رہے تھے کہ ایک منظر میں ’لمبو‘ کے لڑنے کا انداز ان کے دل پر نقش ہوگیا، جس کے بعد پرکاش مہرا سے لمبو کی ملاقات کروائی گئی۔ یہ فلم 1973 میں ’زنجیر‘ کے نام سے ریلیز ہوئی اور تہلکہ مچا دیا۔ سلیم جاوید اور امیتابھ نے ایک ساتھ تقریباً درجن بھر فلمیں کیں جو اپنے عہد کی بہترین عکاسی ہیں۔

زنجیر کی خاص بات انسپکٹر وجے کا وردی اتار کر براہ راست مقابلے کے لیے میدان میں اترنا تھا۔ یہ عوام کی حکومت اور ریاست سے مایوسی کی علامت بن کر ’اینگری ینگ مین‘ کے نام سے مقبول ہوا۔ نوجوانوں کو غربت، بے روزگاری، کرپشن اور سماجی استحصال کے دور میں اپنے اظہار کا موقع ملا۔ وہ ایک باغی کے ہاتھوں نظام کا دھڑن تختہ دیکھ کر خوش ہوتے۔ اس طرح سلیم جاوید نے اپنی تحریروں اور امیتابھ نے پردہ سکرین پر اپنے عہد کی اجتماعی الجھن پیش کر دی۔

’زنجیر‘ کے بعد سلیم جاوید کی تحریر کردہ ’یادوں کی بارات،‘ ’مجبور،‘ ’ترشول،‘ ’دیوار،‘ ’شعلے،‘ ’کرانتی‘ اور ’شکتی‘ باکس آفس پر سوپر ڈوپر ہٹ ہوئیں۔

جب ان دونوں نے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تب کہانی نویسوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں تھا۔ مشہور ہے کہ اگر پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نے کہیں جانا ہے اور مصنف کو بھی وہیں جا کر ان کے ساتھ کام کرنا ہے تو وہ اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھانے کے بجائے کہتے بھئی ٹرام یا بس پر آ جانا۔ فلم ساز لاکھوں روپیہ فلم سٹارز کو دیتے لیکن مصنف کو عزت سے چند ہزار دیتے ہوئے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے تھے۔

 سلیم جاوید نے صرف اپنی ہی نہیں قلم سے وابستہ پورے طبقے کی توقیر میں اضافہ کیا۔ ان کی تحریر کردہ فلم ’دوستانہ‘ کی کاسٹنگ مکمل ہو چکی تو پروڈیوسر یش جوہر ان کے پاس آئے اور معاوضے کی بات کی۔ انہوں نے کہا: ’آپ نے جتنا امیتابھ بچن کو دیا ہے اس سے 50 ہزار ہمیں زیادہ دے دیجے۔‘

یش جوہر نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کوئی لفظ کہے بغیر رضامندی ظاہر کی۔ اس فلم کے لیے امیتابھ بچن کو 12 لاکھ جبکہ سلیم جاوید کو ساڑھے 12 لاکھ روپے ملے تھے۔ یہی وہ موقع ہے جب سلیم خان ابرار علوی کو فون کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ 1980 کی بات ہے جب امیتابھ بچن نمبر ون ہی نہیں نمبر ٹو، تھری ، فور، فائیو یعنی سبھی کچھ تھے۔ ان کے برابر معاوضہ اور وہ بھی قلم کار کے لیے؟ بالی وڈ میں ایسا کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔

لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کمال کو زوال کو جلد یا بدیر زوال کی دیمک کھانے لگتی ہے۔ اس قدر شہرت، عزت اور مقبولیت کے بعد سلیم اور جاوید کی جوڑی کی راہیں الگ ہو گئیں اور جب ہوئیں تو ان کے واقفانِ حال کو کچھ زیادہ حیرت بھی نہیں ہوئی۔

راہیں جدا جدا

 1979 میں ’کالا پتھر‘ کی ناکامی کے بعد یش چوپڑا نے دوبارہ رومانوی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ چوپڑا برادرز فلم کی موسیقی اور گیتوں پر ہمیشہ خصوصی توجہ دیتے رہے۔ نئی موسیقار جوڑی شیو ہری (شیو کمار شرما اور ہری پرساد چوراسیہ) متعارف کروانے کے ساتھ کسی تازہ کار شاعر کی ضرورت بھی تھی۔ چوپڑا برادرز اکثر و بیشتر ساحر لدھیانوی سے گیت لکھوایا کرتے تھے۔ اب ساحر چل بسے تھے اس لیے کسی اور شاعر کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دن یش چوپڑا جاوید اختر کے گھر صبح صبح آئے اور ان سے کہا کہ میں ایک فلم بنانے جا رہا ہوں، جس کے گیت آپ کو لکھنے ہیں۔ جاوید اختر نے صاف انکار کر دیا کہ میں شاعری بس اپنے لیے لکھتا ہوں فلمی گیت لکھنے کا تو کبھی سوچا ہی نہیں۔ اچھی خاصی بحث کے بعد جاوید اختر راضی ہو گئے۔

ایک طرف سلیم جاوید کی لاجواب جگل بندی اور دوسرے جانب مستقبل کے سنہرے سپنے۔ کچھ روز سوچنے کے بعد جاوید اختر نے ایک دن سلیم خان سے کہا کیوں نہ ہم سلیم جاوید کے نام سے فلموں میں گیت بھی لکھنے شروع کر دیں؟ سلیم خان پہلے تو چونکے، پھر کہا: ’جو کام میں جانتا نہیں وہ کیسے کر سکتا ہوں۔ اگر ہم نے آج یہ کیا تو کل لوگ کہیں گے فلم بھی صرف جاوید ہی لکھا کرتا تھا!‘

کچھ روز بعد جاوید اختر نے کہا:  ’میں الگ کام کرنا چاہتا ہوں۔‘

سلیم خان نے کہا: ’آپ نے پانچ منٹ پہلے تو ایسا سوچا نہیں ہو گا۔ ابھی اچانک خیال آیا ہے تو کچھ دیر بعد نیا خیال ہو گا۔‘

جاوید بولے: ’نہیں میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔‘

سلیم جیسے ہی جانے کے لیے کھڑے ہوئے جاوید اختر ان کے ساتھ گاڑی تک چھوڑنے کے لیے جانے لگے۔ جاتے جاتے سلیم خان نے کہا: ’آپ جائیے میں اپنا خیال خود کر لوں گا۔‘

یہ جے اور ویرو نہیں جاوید اور سلیم تھے۔ یہ فلم کا اندھیرا اجالا نہیں زندگی کی دھوپ چھاؤں تھی۔ ذاتی مفادات کی بھٹی میں رشتوں کی ڈور جلنے لگی ’اور پھر چل دیے تم کہاں ہم کہاں۔‘ اس میں کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ یہی انسانی فطرت ہے۔

 سلیم خان کے لیے یہ غیر متوقع صدمہ تھا۔ وہ دوبارہ پہلے جیسا نام اور مقام کبھی نہ بنا سکے۔ دوسری جانب بطور نغمہ نگار جاوید اختر نے ایسی اڑان بھری کہ سکرپٹ رائٹر جاوید پیچھے رہ گیا۔ سلیم خان وقت کی گرد میں دھندلا گئے۔ جاوید اختر آج بھی مختلف بھی چمکتے نظر آتے ہیں زیادہ تر مکالماتی محفلوں میں، کبھی کبھار ایوارڈ شوز میں مگر بہت ہی کم تازہ فلموں کے گیتوں میں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم