پاکستان:’2021 میں کرونا کا زور ٹوٹا ہے یہ ختم نہیں ہوا‘

ڈاکٹر جاوید حیات کا کہنا تھا: ’یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ 2021 میں کرونا کا زور ٹوٹا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں کرونا کیسز کی شرح ملک بھر میں کافی کم رہی۔ کرونا کی چوتھی لہر جس کے بارے میں لوگ خوفزدہ تھے وہ بہت ہلکی تھی۔‘

3 اگست 2021 کو کراچی میں ڈرائیو تھرو ویکسی نیشن کے دوران، ایک شخص کووڈ 19 سے بچاؤ کی  سائنو فارم ویکسین لگوا رہے ہیں (تصویر:اے ایف پی)

سال 2021 بھی گذشتہ سال کی طرح عالمی وبا کے اتار چڑھاؤ کا سال ثابت ہوا۔ پاکستان میں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان رواں سال کرونا سے نسبتاً محفوظ رہا۔

این سی او سی کے مطابق جب سے کرونا وائرس آیا ہے اس وقت سے اب تک یہ وائرس ملک کے 12 لاکھ 94 ہزار379 کو متاثر کر چکا ہے۔ جب کہ اس وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد 12 لاکھ 55 ہزار396 ہے۔

اب تک پاکستان میں دو کروڑ 32 لاکھ 73 ہزار887 کرونا ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں اور اس وائرس نے ملک بھرمیں 28 ہزار 918 افراد کی جان لی ہے۔

2021 میں کرونا کے کتنے ویرینٹس پاکستان آئے؟

کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن اور پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جاوید حیات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’2021 میں  پاکستان میں کرونا کے دو ویرینٹس آئے جن میں ڈیلٹا اور اب اومیکرون ہیں لیکن زیادہ زور ڈیلٹا کا رہا، اومیکرون کے ابھی چند کیس ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا ہی وہ ویرینٹ ہے جو سب سے زیادہ اثر انداز ہوا۔‘

دوسری جانب قومی ادارہ صحت نے پاکستان میں نئے اومیکرون ویرینٹ کے 75 کیسز کی تصدیق کی ہے۔ بدھ کو ٹویٹر پر جاری ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ اومیکرون کا پہلا کیس 13 دسمبر کو کراچی میں رپورٹ ہوا جس کے بعد سے اب تک 75 مریض سامنے آچکے ہیں۔ ان 75 کیسسز میں سے 33 کا تعلق کراچی، 13 کا لاہور، 17 کا اسلام آباد جب کہ 12 کیسز کا تعلق بیرون ملک سفر کرنے والوں سے ہے۔

ڈاکٹر جاوید حیات کا بھی کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ پر ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ وائرس شاید اتنا خطرناک نہیں لیکن اس کا انفیکشن ریٹ یا پھیلاؤ باقی ویرینٹس سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں کتنے افراد کی ویکسی نیشن ہوئی؟

 این سی او سی کے مطابق اب تک پاکستان میں 15 کروڑ 34 لاکھ 77 ہزار 237 افراد کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے جن میں چھ کروڑ 85 لاکھ 8472 افراد ویکسین کی دونوں خوراکیں لے چکے ہیں جب کہ نو کروڑ 51 لاکھ 59 ہزار 489 افراد کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی جاچکی ہے۔

این سی او سی کے احکامات کے مطابق ملک بھر میں 50 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد، ہیلتھ ورکرز اور وہ افراد جن کی قوت مدافعت کسی اور بیماری کی وجہ سے کمزور ہے،  کے لیے بوسٹر ڈوز کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔

بوسٹر ڈوز کے لیے شرط ہے کہ ویکسین کی پہلی دو ڈوزز کو لگے چھ ماہ ہوچکے ہوں جب کہ این سی او سی کے مطابق موڈرنا، سائنو ویک، سائنو فارم یا فائزر ویکسین کو بوسٹر ڈوز کے لیے ترجیح دی جائے۔ جب کہ ویکسینیشن 12 سال سے زیادہ عمر کے تمام افراد کو لگوانی ہوگی۔

ویکسینیشن کے حوالے سے وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پنجاب کو اس سال کرونا وبا کی دو بڑی لہروں نے متاثر کیا جسے تیسری اور چوتھی لہر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی سے لڑنے کے لیے صوبے نے تاریخ کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا اور این سی او سی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اب تک ملک بھر میں پنجاب 68 فیصد ویکسینیشن کوریج کے ساتھ تمام صوبوں سے آگے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کرونا ویکسینیشن کے لیے ریڈ مہم یعنی ’ریچ ایوری ڈور‘ مہم کے دو فیز چلائے گئے۔ پہلے فیزمیں ایک کروڑ 25 لاکھ لوگوں کو ویکسین لگائی گئی جب کہ دوسرا فیز 31 دسمبر کو ختم ہوگا۔

یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے 2021 میں 106 ارب روپے کا کرونا ریلیف پیکج بھی دیا۔ پنجاب کی پوری آبادی کی ویکسینیشن کے لیے 10 ارب روپے کی خصوصی رقم بھی مختص کی گئی۔

ویکسین کون کون سی لگی؟

کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن اور پلمنالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حیات نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’پاکستان میں ویکسینیشن لگوانے کے لیے بہت سے لوگ تیار نہیں تھے یا اسے اس سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ لیکن جب گرمیوں میں بھارت میں ڈیلٹا ویرینٹ آیا اور وہاں اموات کا سلسلہ بڑھ گیا تب عوام کچھ خوفزدہ ہوئے اور ویکسینیشن لگوانے کا عمل تیز ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تمام ویکسینیشنز جن میں امریکن، برطانوی، روسی اور چائنیز ویکسینز موجود تھیں اور ابھی بھی ہیں۔ ان میں ایسٹرا زینیکا، فائزر، سپوٹنک، موڈرنا، سائنوفارم اور سائنو ویک شامل ہیں۔

کیا پاکستان میں کرونا کا زور ٹوٹ چکا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید حیات کا کہنا تھا: ’یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ 2021 میں کرونا کا زور ٹوٹا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں کرونا کیسز کی شرح ملک بھر میں کافی کم رہی۔ کرونا کی چوتھی لہر جس کے بارے میں لوگ خوفزدہ تھے وہ بہت ہلکی تھی۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مارچ یا اپریل 2021 میں کرونا کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ ہمارے ہسپتالوں میں اس وقت کرونا کے مریضوں کے بستر 10 اور سات فیصد سے کم ہیں۔ اور مثبت کیسز کی شرح بھی ایک فیصد سے کم چل رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا ویکسینیشن کا آغاز مارچ 2021 میں کیا گیا تھا۔ اب تو کرونا کو بالکل ختم کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں ریڈ مہم چل رہی ہے۔

مہم کے بارے میں انہوں نے کہا: ’جس میں ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کرونا کو ویکسینیشن کے ذریعے ختم کیا جائے۔ اب تو واحد بچاؤ ویکسینیشن ہی ہے۔ کیونکہ عوام باقی احتیاطی تدابیر جیسے ماسک لگانا یا ہاتھ وغیرہ دھونے پر اس طرح سنجیدگی سے عمل نہیں کرتے۔ اس لیے اب پنجاب حکومت لوگوں کو گھروں میں جا کر ویکسین لگا رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ کرونا کے دوران ویکسینیشن کی مختلف مہمات چلائی گئیں جن میں پہلے تو مخصوص جگہوں پر ویکسی نیشن سینٹرز قائم کیے گئے۔ پھر مختلف ہسپتالوں اور سکولوں وغیرہ میں۔ اس کے بعد ڈرائیوو تھرو شروع کیا اور موبائل یونٹ وینز کا آغاز کیا گیا اور اب ٹیمیں گھر گھر جا کر خود لوگوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔

ڈاکٹر جاوید حیات کا یہ بھی کہنا ہے: ’یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کرونا کا زور ٹوٹا ہے یہ ختم نہیں ہوا۔ جب تک یہ وبا پوری دنیا سے ختم نہیں ہوتی تب تک کوئی ملک بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے ملک میں کرونا ختم ہو گیا۔ جیسے ابھی اومیکرون کے جو مریض پاکستان میں رپورٹ ہوئے وہ زیادہ تر باہر کے ملکوں سے یہاں آئے تھے۔ ہمارے ہاں جو بالکل شروع میں کیسز آئے تھے وہ بھی وہ لوگ تھے جو ایران اور برطانیہ سے آئے تھے اورپھر یہ وبا یہاں پھیلی۔ اس لیے ہم گراف نیچے جاتا دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب ہمیں فکر نہیں کرنی۔ بلکہ جب تک کرونا پوری دنیا سے ختم نہیں ہوجاتا ہمیں احتیاط کرنا ہوگی۔‘

سال 2021 میں پاکستان میں لگنے والے لاک ڈاؤن اور ان کے نقصانات

کرونا وبا کے پیش نظر جہاں مختلف صوبوں میں مثبت کیسز کی شرح کو دیکھتے ہوئے مختلف علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا گیا وہیں ملک بھر میں حکومت کی جانب سے دو بڑے لاک ڈاؤن لگائے گئے۔ جن میں سے ایک لاک ڈاؤن اپریل مئی میں عید الفطر سے پہلے لگا جس میں تمام تعلیمی و کاروباری سرگرمیوں کو بند کر دیا گیا تھا۔

آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کرونا جب پاکستان میں آیا تو ہم وبا کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ اس لیے لاک ڈاؤن لگانا اور تعلیمی اداروں کو بند کر نا ایک فطری عمل تھا جو سمجھ میں آتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’پہلا لاک ڈاؤن جنوری میں ہوا جب پاکستان ڈیموکریٹک مومونٹ کے جلسے جلوس اور ریلیاں عروج پر تھیں اور وہ جلسے کرونا پھیلانے کا سبب بنے جس کے بعد انہوں نے لاک ڈاؤن لگایا ان مخصوص علاقوں میں جہاں یہ جلسے ہوئے۔ اس کے بعد مارچ اپریل میں لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ اس کے بعد تیسرا لاک ڈاؤن انہوں نے جولائی کے نزدیک لگایا جب سندھ میں نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا تھا۔‘

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ان لاک ڈاؤنز کی وجہ سے والدین، بچوں اور اساتذہ میں غیر یقینی کا احساس پیدا ہوگیا جس سے تعلیم کی جانب ان میں غیر سنجیدگی نے جنم لیا اور سارا تعلیمی نظام متاثر ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پانچ کروڑ بچے سکول و کالج و یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے 50 فیصد بچے تعلیمی اداروں میں واپس نہیں آئے۔ 2020 میں 10 ہزار پرائیویٹ سکولز بند ہوئے جبکہ 2021 میں اس مزید آٹھ ہزار تعلیمی اداروں کا اضافہ ہوا جو بند ہو گئے۔ جس کی وجہ سے 15 لاکھ اساتذہ میں سے تقریباً سات لاکھ اساتذہ تعلیم کے شعبے کو چھوڑ چکے ہیں۔

تعلیم کے علاوہ معاشی نقصان

پاکستان اکنامک سروے 2020 اور 21 کے مطابق مارچ 2020 میں پہلا لاک ڈاؤن لگا جس کی وجہ سے پاکستان سٹاک مارکیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر 1500 پوائنٹس مندی دیکھی گئی۔ اس کی بڑی وجوہات میں پہلی تو شرح سود میں اضافہ، تیل کی قیمت میں کمی اور کرونا وبا کا آغاز تھا۔ مختلف حصص میں اربوں کی گئی سرمایہ کاری ایک تہائی کم ہوئی اور کچھ  صورتوں میں نصف کمی آئی۔

کراچی سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس جوجنوری 2020 میں 42 ہزار سے اوپر تھی اور اس میں مزید اضافہ کی توقع تھی وہ کرونا کے پھیلنے کے خوف اور مارچ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی۔ سٹاک ایکسچینج کی صورتحال مارچ 2020 کے آخر میں بہتر ہونے لگی تھی مگر اسے اپنے اسی مقام پر آنے میں ایک سال کا وقت لگا۔

اکنامک سروے کے مطابق کرونا وبا کے سبب سماجی دوری کو برقرار رکھنے کی وجہ سے  سروسسز سیکٹر بری طرح متاثر ہوا جن میں ہوٹل، ریستوران، شادی ہال اور مارکیز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کاروبار بھی بند ہوئے۔ اسی طرح سرحدوں کی بندش کے سبب بھی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور ہول سیل اور ریٹیل تجارت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا جس کا سروسسز سیکٹر میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کے بعد سب سے بڑا حصہ ہے۔

پاکستان اکنامک سروے 2020 اور 21 کے مطابق 2015 اور 16 میں 24.3 فیصد پاکستانی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی جب کہ 19.87 فیصد آبادی ایسی ہے جو کسی بھی وقت غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں۔ کرونا وبا کے سبب اندازہ لگایا گیا ہے 44 فیصد آبادی بشمول  24.3 فیصد وہ آبادی جو خط غربت سے نیچے رہ رہی ہے، اس وقت معاشی طور پر خطرناک صورتحال کا سامنہ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں صوبوں کی مناسبت سے کرونا کے اعدادو شمار

صوبوں کے لحاظ سے صوبہ سندھ میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی تعداد چار لاکھ 81 ہزار96 ہے جو تمام صوبوں سے زیادہ ہے جب کہ پنجاب میں مثبت کیسز کی تعداد چار لاکھ  44ہزار752، کے پی میں ایک لاکھ 81 ہزار 285، بلوچستان میں33 ہزار 626، اسلام آباد میں ایک لاکھ آٹھ ہزا534، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 429 اور آزاد کشمیر میں مثبت کیسز کی تعداد 34 ہزار 657 رہی۔

عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق سال2021میں پاکستان میں چار جنوری یعنی سال کے پہلے ہفتے سے 27 دسمبر2021 یعنی سال کے آخری ہفتے تک کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی تعدادا آٹھ لاکھ نو ہزار 353 ہ۔

اگر 2020 اور 21 کے اعدادو شمار دیکھے جائیں تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان دو برسوں میں پاکستان بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسسز کی تعداد 12 لاکھ 93 ہزارسات سو 15 ہے جبکہ دو برسوں میں اموات کی تعداد 28 ہزار 909 ہے۔

ان اعدادوشمار کا موازنہ کیا جائے تو2021 میں مثبت کیسز کی تعداد 2020 سے زیادہ تھی مگر یہ عالمی ادارہ صحت کا گراف جس تیزی سے نیچے آرہا ہےاس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مثبت کیسز اور اموات کی تعداد اور شرح میں واضع کمی آرہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت