اسرائیلی وزیر ’جنگ‘ کے گھر ’امن‘ کی باتیں

فلسطینی صدر محمود عباس اسرائیلی وزیر ’جنگ‘ بینی گانٹز کے بنگلے پر انہیں صہیونی فوج کے ساتھ سکیورٹی تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانیاں کرانے گئے تاکہ مزاحمت کا شعلہ بھڑکنے سے روکا جا سکے۔

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے 9 دسمبر 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگون میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن (فریم میں نہیں) سے ملاقات کی (اے ایف پی)

فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس [المعروف ابو مازن] اور اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گانٹز کے جو دراصل وزیر ’جنگ‘ زیادہ لگتے ہیں درمیان 28 دسمبر 2021 کی شام ہونے والی ملاقات فلسطینی اتھارٹی کے سیاسی بانجھ پن اور ناکامی کی منہ بولتی تصویر تھی۔

تل ابیب کے قریب بینی گانٹز کی رہائش پر ہونے والی ملاقات ظاہر کر رہی تھی کہ ابو مازن نے 2021 سے کچھ سبق نہیں سیکھا اور وہ عین سال گذشتہ کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے جا پہنچے ہیں جن کی جارحیت کے تسلسل نے فلسطین کو بیمار اور مضمحل کر رکھا ہے۔

اسرائیل میں یہودیوں کے لیے بستیوں کی تعمیر، عرب علاقوں کو یہودی رنگ میں رنگنے کے واقعات اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحانہ اقدامات میں تیزی آ رہی ہے۔ آئے روز مقامی فلسطینی، صہیونی آباد کاروں کے حملوں کا ہدف بن رہے ہیں۔

ایسے میں محمود عباس پیرانہ سالی میں سفر کی مشقت اٹھا کر بینی گانٹز کے دربار میں حاضری کے لیے پیش ہو کر انہیں اسرائیلی فوج کے ساتھ سکیورٹی تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانیاں کرانے گئے تھے تاکہ مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت کے شعلے کو بھڑکنے سے روکا جا سکے۔

اندریں حالات فلسطینی صدر قاہرہ کے حالیہ دورے میں جب مصری قیادت سے معطل شدہ امن عمل بحال کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو وہ درحقیقت ایک ایسا احمقانہ کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں کہ جس میں انہیں فلسطینی عوام سمیت پوری ملت امت کی سوچ اور جذبات کا پاس نہیں ہوتا۔

کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ فلسطینی اتھارٹی، جسے ’فتح‘ اور تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] کی قیادت کہنا زیادہ مناسب ہو گا، بغیر کسی سیاسی افق کے تعین کے نئے سال میں قدم رکھ رہی ہے۔

گذشتہ برس 2021 کے دوران فلسطینی قومی مصالحت اور اندرون ملک حالات میں بہتری کی علامت یعنی انتخابات کی راہیں مسدود کر کے پی ایل او کی قیادت نے اپنی رہی سہی اعتباریت بھی کھو دی تھی۔

فلسطین کی مجلس قانون ساز کے انتخاب نے داخلی اختلافات کے خاتمے میں مدد دینا تھی۔ مجلس قانون ساز کے منتخب ہونے کے بعد صدارتی انتخاب اور آگے چل کر فلسطین کی قومی کونسل کے انتخاب کی راہ ہموار ہونا تھی، لیکن ہٹ دھرم فلسطینی قیادت نے یہ تمام خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیے۔

فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ قیادت داخلی مصالحت کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی اہل نہیں۔ ایسے میں عبوری قیادت یا کسی ایسی تنظیم کا دم غنیمت ہو گا جسے فلسطینیوں کا اعتماد حاصل ہو اور اس کا تعین کرنے کا بہترین طریقہ انتخابات ہی تھے۔

جتنی تیزی سے فلسطینی اتھارٹی نے اپنے ہم وطنوں کے اعتبار سے ہاتھ دھوئے ہیں اتنی ہی برق رفتاری سے انہوں نے بزعم خود امریکہ اور اسرائیل کی نظروں میں اپنا ’سیاسی قد‘ بڑھایا ہے۔ انہوں نے اعلی سطح پر اسرائیل سے سکیورٹی تعاون برقرار رکھا۔

فلسطینی قیادت کے اس اقدام سے اسرائیل کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں جمع کی جانے والی بھاری رقم خرد برد کرنے کا جواز مل گیا۔ اسی قیادت نے غرب اردن کے علاقے میں سیاسی مخالفین، عوامی احتجاج اور مزاحمت نواز مظاہرین کو کچل کر مغربی کنارے میں اپنا شملا اونچا کرنے کی کوشش کی۔

ان تمام اقدامات کا نقطہ عروج غرب اردن میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن نزار بنات کا قتل تھا۔ فلسطینی اتھارٹی نے 2021 کے اختتام پر اپنی ’نیشنل سکیورٹی‘ ایجنسی سے وابستہ افراد کے ذریعے لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس]  کے رکن کے جنازے پر حملہ کروایا جس میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ فلسطین کی تاریخ میں یہ عدیم النظیر واقعہ تھا۔

سیاسی مبصریں کی بڑی اکثریت سمجھتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل میں ناکامی اور امن عمل کے بند گلی میں داخلے کے بعد فلسطینی اتھارٹی اور اس کی قیادت اپنی سمت اور حق حکمرانی کھو چکی ہے۔

اسرائیل نے کسی نتیجے کے بغیر امن عمل کو طویل مدت تک کامیابی سے ’مینج‘ کیا تاکہ وہ مغربی کنارے اور یروشیلم میں یہودی آباد کاری اور ان مقامات کو یہودی رنگ دینے کا عمل تیزی سے مکمل کر سکے۔

اس مقصد کے لیے فلسطینی اتھارٹی اپنے ہی عوام کو کچل کر اسرائیل کے ہاتھ میں آلہ کار بنی۔ اسرائیلی حکام کے بقول ’فلسطینی اتھارٹی نے تل ابیب کو پنج تارہ درجے کی خدمات پیش کر کے اسرائیل کے استعماری منصوبے کی ترویج میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔‘

اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا اور دنیا بھر کی ریاستوں سے اپنے اس اقدام کی سیاسی توثیق بشمول عرب اور اسلامی دنیا سے اپنے ناجائز وجود کو تسلیم کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔

اس کے نتیجے میں اسرائیل کو بہتر استحکام اور معاشی آسودگی میسر آئی جبکہ صہیونی ریاست نے فلسطینی کاز کو گھیرے میں لے کر بے دست وپا کر ڈالا۔ اسرائیل، زمین پر بتدریج اپنے قدم جماتا جا رہا ہے۔

دو ریاستی حل کی ہیئت تبدیل کر کے اسے ’خاموش انضمام‘ اور ’خاموش سپردگی‘ بنا دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل نے بڑے علاقے پر اپنا اثر ونفوذ قائم کرنے کے نظریہ کو اس طرح عملی جامہ پہنایا کہ وہاں پر فلسطینیوں کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔ اس کام میں صہیونی ریاست کے ایجنٹ اور باجگزار حلقے ہی کام آئے۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مات دینے میں کوشاں رہی۔ مزاحمت کاروں کو ’بین الاقوامی جواز‘ کا لالی پاپ دکھا کر باور کرایا جاتا کہ بقا کا یہی ایک راستہ بچا ہے۔

حالانکہ تین دہائیوں سے فلسطینی اتھارٹی اس جواز کو غزہ اور غرب اردن میں فلسطینی ریاست بنانے کے لیے استعمال نہ کر سکی۔ فلسطینی قیادت قومی آزادی کے منصوبے میں تبدیلی کے لیے درکار قوت اور تاثیر کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔

محمود عباس اینڈ کمپنی سفارتی شعبدہ بازیوں سمیت امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے مگر وہ فلسطین کے اندر اور پورے دنیا میں پھیلے ہوئے ہم وطنوں کی امکانی اہلیت کو کیش کروانے میں افسوسناک حد تک ناکام رہے۔

فلسطینیوں کی گردنوں پر سوار قیادت ملک کے داخلی مسائل اور ابتری کو حقیقی نمائندہ بنیادوں پر حل کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے اسرائیلی تسلط کے خلاف نبرد آزما مزاحمتی گروپوں کی امکانی صلاحیت سمیت ان غیر جانبدار مؤثر اور توانا آوازوں پر بھی کان نہیں دھرا۔ یہی قیادت، فلسطینی معاملات پر ایک ہی فریق ’فتح‘ کو حاوی دیکھنے کی خو میں پاگل بنی رہی جبکہ باقی تمام لوگوں کو دیوار سے لگایا جاتا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی افق سے عاری یہی فلسطینی قیادت ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی پالیسی تبدیل کرتی چلی آ رہی ہے۔ ان کے پاس امن عمل کو ناکامی سے بچانے کے لیے کوئی حل نہیں، یہ اس سراب کے پیچھے دوڑ دھوپ کو ہی سب کچھ سمجھ کر اس میں اپنی توانائی کھپا رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ادارے بنانے کی صلاحیت نہیں جہاں اہل افراد کو میرٹ کے مطابق ایک چھتری تلے جمع کیا جا سکے۔

معیشت کے میدان میں فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی حقیقی منصوبہ عمل موجود نہیں کہ جسے روبعمل لا کر وہ دنیا بھر اور خود فلسطین کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے فلسطینیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

محمود عباس کے پاس اپنے قیمتی ہیومن ریسورس اثاثوں کو مجتمع کر کے انہیں آزادی کے قومی منصوبے میں شامل کرنے کی چنداں صلاحیت نہیں۔ ان کی اپنی حکمران جماعت ’فتح‘ کے اندر انتہائی منظم مالیاتی اور انتظامی بدعنوانی موجود ہے۔ وفاداری کی بنیاد پر جعلی ملازمتوں کا بازار گرم ہے جس سے صرف ’فتح‘ سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔

اسرائیلی تسلط سے آزادی اور ترقی کے لیے مناسب معاشی ماحول تیار کرنے کے بجائے فلسطینی اتھارٹی نے تباہ کن ’پیرس پروٹوکول‘ پر دستخط کرنے میں عافیت جانی۔ جس کے بعد غرب اردن اور غزہ کی پٹی کی اقتصادی حالت اسرائیل کے چنگل میں پھنس گئی۔

اس تمام منظر نامے میں سب سے تباہ کن بات قیادت کا انہی ناکام پالیسیوں پر مسلسل اصرار ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار اپنا منصب بھی نہیں چھوڑنا چاہتے جس کی وجہ سے کسی بھی معاملے میں شفاف اور سنجیدہ راہ اپنائی نہیں جا سکتی۔

فلسطینی اتھارٹی کی شکل میں اقتدار پر براجمان ٹولہ فلسطینیوں کے لیے بوجھ بن گیا ہے۔ عالمی صہیونی منصوبے کے خلاف جدوجہد کو ایسی قیادت کی سربراہی میں جاری رکھنا ناممکن ہے کہ جو قیادت کے بنیادی اوصاف سے عاری ہو، ایسے رہنما فلسطین جیسے عالمی کاز کو حل کروانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ منصور جعفر کے مضامین جو ہر جمعے کو شائع کیے جاتے تھے اب آپ کو بدھ کو پڑھنے کو ملا کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ