ہمیں بیرونی افرادی قوت کی ضرورت نہیں: افغان طالبان

افغان طالبان کے ترجمان اور امارات اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور علم و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی پیشکش کے جواب میں کہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت نہیں ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد 15 جنوری 2022 کوایک انٹرویو دے رہے ہیں (تصویر: اے پی)

افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ نے پاکستان کی جانب سے ہنر مند افرادی قوت افغانستان بھیجنے کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں پہلے ہی کافی تعلیم یافتہ نوجوان موجود ہیں۔

واضح رہے کہ جمعے کو ایک اعلیٰ سطح کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ’تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت‘ افغانستان بھیجنے کا خیال پیش کیا تھا، تاکہ پڑوسی ملک کو انسانی بحران سے بچایا جاسکے۔

وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ طبی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معاشی ماہرین کو افغانستان بھیجیں تاکہ وہاں انسانی بحران پیدا نہ ہو۔

تاہم افغان طالبان کے ترجمان اور امارات اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور علم و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی پیشکش کے جواب میں کہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی پشتو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس پیشکش پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ افغانستان میں ماہر اور تعلیم یافتہ کارکنان کی کافی تعداد موجود ہے۔

سلام وطن دار نامی ویب سائٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ امارات اسلامیہ افغانستان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان نعیم وردک نے ایک آڈیو سنائی جس میں ذبیح اللہ مجاہد اس بات پر زور دیتے ہوئے سنائی دیے کہ ’افغانستان کی وزارتوں میں کام کرنے کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کافی تعداد موجود ہے اور بیرونی افرادی قوت کی ضروت نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ضرورت پڑنے پر بیرونی ممالک سے عملہ طلب کرنے کی درخواست کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں کئی ممالک نے افغانستان کو تجاویز دی ہوئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم افغان طالبان کے ترجمان نے معاشی اور تجارتی تعاون کی ضرورت پر یہ کہتے ہوئے زور دیا کہ پہلے ملک میں بینکوں سے متعلق کچھ مسائل تھے جن میں مدد کی ضرورت تھی۔

دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی کہا ہے کہ بیرون ممالک سے کارکنان کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا: ’افغانستان میں تجربہ کار اور پیشہ ور عملہ موجود ہے اور اس کے علاوہ سینکڑوں ہزار تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، جنہوں نے ملک میں اور ملک سے باہر تربیت حاصل کی ہے۔‘

حامد کرزئی نے پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امارات اسلامیہ افغانستان میں طالبان کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں میں جلاوطن پیشہ ور افراد کو واپس لانے کی کوشش کریں تاکہ افغانستان اپنے ’مضبوط بازوؤں‘ کے سہارے اپنے بچوں کو پروان چڑھائے۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ’پاکستان افغانستان کو جامع انداز میں مدد فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے تاکہ وہاں انسانی بحران پیدا ہونے سے روکا جاسکے۔‘

اس سے قبل نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ امارات اسلامیہ افغانستان کو ماہر اور پیشہ ور عملے کی قلت کا سامنا ہے اور اس نے پاکستان سے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔

گذشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ مالی بحران میں مبتلا ہوگیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ملک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، جب کہ امدادی رسد میں بہت زیادہ خلل پیدا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے 3.8 کروڑ عوام میں سے نصف سے زائد کو اس موسم سرما میں بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا