دہشت گردی واقعات کے بعد صوبائی حکومتوں اور پولیس کو الرٹ جاری

گذشتہ سال دسمبر میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات ختم ہونے کے بعد حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں چھوٹے پیمانے پر حملوں کا سلسلہ دیکھنے میں آیا جن میں پولیس اہلکاروں، سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

سکیورٹی اہلکار 20 جنوری 2022 کو لاہور میں بم دھماکے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان وزارت داخلہ کی جانب سے لاہور میں پیش آنے والے دہشت گردی واقعے کے بعد تمام صوبائی حکومتوں اور پولیس حکام کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جمعے کو اسلام آباد میں وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’انار کلی بازار، لاہور میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے اور ریاست مخالف عناصر کی سرگرمیوں سے لاحق خطرات کے پیش نظر، تمام صوبائی اور خصوصی علاقوں کی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے انتہائی نگرانی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے چوکس رہنے کی درخواست کی جاتی ہے۔‘

ہفتے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’دراصل این ڈی ایس اور را کو افغانستان میں جو شکست ہوئی ہے اس کے بعد ان کے چھوٹے موٹے گروپ پاکستان میں دہشت گردی کی فضا بنانا چاہتے ہیں، انہیں شکست فاش ہوگی۔‘
لاہور میں دہشت گردی کے واقعے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک آدمی کے پیچھے ہیں۔ بہت قریب نہیں، لیکن ہم قدموں کی چاپ پر پیچھے چل رہے ہیں۔‘
پولیس حکام کے مطابق پنجاب بھر میں بھی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ انار کلی بازار میں ہونے والے حالیہ دھماکے کی ذمہ داری نئے قائم ہونے والے عسکریت پسند گروپ بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں قبول کی تھی۔

عرب  نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کامران عادل نے کا کہنا تھا کہ’ہم پوری مستعدی سے صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ حملے میں میں بلوچستان نیشنلسٹ آرمی کو نامزد کرنا قبل از وقت ہو گا۔ انہوں نے کہا: ’واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہے اور امید ہے کہ جلد کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔‘

پنجاب پولیس کے مطابق دھماکہ ٹائم بم کے ذریعے کیا گیا جو موٹرسائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔ دھماکہ خیز مواد کی قسم کے بارے میں سوال پر ڈی آئی جی کامران عادل کے بقول: ’تحقیقات مکمل ہونے کے بعد تمام سوالات کا جواب دیا جائے گا۔‘

گذشتہ سال دسمبر میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات ختم ہونے کے بعد حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں چھوٹے پیمانے پر حملوں کا سلسلہ دیکھنے میں آیا جن میں پولیس اہلکاروں، سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پیر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے خبردار کیا کہ حملہ دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے صحافیوں کو بھیجے گئے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کامران عادل کے مطابق پولیس مخصوص خفیہ معلومات اور سکیورٹی  خطرات سے الگ الگ سے نمٹ رہی ہے تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔ ان کے مطابق: ’ہم نے اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر اہداف مقرر کیے ہیں لیکن اس موقعے پر کوئی مخصوص خطرہ نہیں ہے۔ یہ میدان ہے جہاں میں مسلسل کام کر رہے ہیں۔‘

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے  مطالبات ماننے سے انکار کے بعد پاکستانی طالبان مختلف شہروں میں حملوں کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل نے عرب نیوز کو بتایا: ’حال ہی میں مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے کچھ بڑے کمانڈر مارے گئے۔ پاکستان میں حالیہ حملے مقامی عسکریت پسند گروپس کا ردعمل معلوم ہوتے ہیں۔‘

بلوچ نیشنلسٹ آرمی میں کون سے گروہ شامل ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے ہزار بلوچ کے مطابق بلوچستان میں برسرپیکار دو مسلح گروہوں نے گیارہ جنوری 2022 کو اپنے ٹیلی گرام چینل پر اعلان کیا کہ بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے ایک نئی تنظیم ’بلوچ نیشنلسٹ آرمی‘  قائم کردی گئی ہے۔ 

 اسی تنظیم نے لاہور کے انارکلی بازارمیں ہونے والے بم دھماکےکی ذمہ داری قبول کی ہے۔  

بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کا قیام 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد عمل میں آیا۔ ابتدائی طور پر اس میں زیادہ تر بگٹی قبیلے کے لوگ شامل تھے۔  بی آر اے نے کبھی اپنے سربراہ کا اعلان نہیں کیا لیکن بلوچستان حکومت کا الزام ہےکہ اس کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے براہمدغ بگٹی ہیں جو اس کی تردید بھی کرتے رہتےہیں۔ یہ تنظیم 2018 میں دو حصوں تقسیم ہوگئی اور مکران میں اس کی سربراہی گلزام امام نے سنبھال لی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ تنظیم 2010 میں حیربیار مری اور مہران مری کے درمیان اختلافات کے باعث بنی۔ گذشتہ سال اس تنظیم میں بھی مزید دو دھڑے بن گئے جس کی وجہ سرفراز بنگلزئی (عرف مرید بلوچ) اور تنظیم کے سربراہان میں اختلافات تھے۔ 

بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں گروہوں کے عہدیداران اس تنظیم کے قیام کا مقصد ’قوت یکجا کرنا اور قومی مزاحمتی جنگ کو وسعت دینا‘ سمجھتے ہیں۔ 

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’یہ تنظیم وسیع تر اتحاد بلوچی راجی  آجوئی سنگر(براس) کا بھی حصہ ہوگی۔‘ براس، بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے) اور بلوچ رپبلکن گارڈ (بی آر ڈی) نامی تنظیموں کا  ایک اتحاد ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان