پولیس پر حملے کے بعد اسلام آباد میں ’سکیورٹی ہائی الرٹ‘

اسلام آباد پولیس ترجمان انسپکٹر نعیم اقبال کے مطابق ’دہشت گرد حملے کے بعد پاکستانی دارالحکومت میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ  کر دیا گیا ہے۔ مستقبل میں پولیس اہلکاروں پر حملے روکنے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے۔‘

پولیس فیصل مسجد اسلام آباد میں جہاں 28 نومبر 2009 کو ہزاروں نمازی نماز ادا کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

سوموار کو پولیس اہلکاروں پر دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد  میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔

پولیس اہلکاروں پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔ پاکستان میں عسکریت پسند سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن حالیہ سالوں میں ملک کا دارالحکومت زیادہ پرامن رہا ہے۔

سوموار کو موٹرسائیکل پر سوار دو عسکریت پسندوں نے شہر میں گشت کرنے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی۔  ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے منگل کہا کہ پولیس نے فائرنگ کر کے دونوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم انہوں نے واقعے کے حوالے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بیان جاری کر کے پولیس اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان انسپکٹر نعیم اقبال نے  عرب نیوز کو بتایا کہ’دہشت گرد حملے کے بعد پاکستانی دارالحکومت میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ  کر دیا گیا ہے۔ مستقبل میں پولیس اہلکاروں پر حملے روکنے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سال میں دارالحکومت میں عسکریت پسندوں کے مختلف حملوں میں 55 پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقبال کے بقول: ’وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی مجموعی صورت حال قابو میں ہے۔ ہم جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں موقعے پر جانچ پڑتال اور کومبنگ آپریشنز کر رہے ہیں۔‘

افغان طالبان سے الگ تحریک ٹی ٹی پی کئی سال سے پاکستان میں حکومت کا تختہ الٹ کر ’شریعت کے نفاذ‘ کے لیے لڑتی رہی ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکومت پر قیدیوں کی رہائی کے معاہدے اور مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سمیت مختلف شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایک ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی دسمبر میں ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس ماہ کے آغاز میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے خلاف دوبارہ مسلح کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے سابق سربراہ خواجہ خالدفاروق نے عرب  نیوز کو بتایا کہ ٹی ٹی پی حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے بقول: ’انہوں نے اسلام آباد پولیس کو ہدف بنانے کے لیے  مارو اور بھاگو کی حکمت عملی اپنا لی ہے تا کہ وفاقی دارالحکومت میں خوف کی فضا پیدا کی جا سکے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے مختلف انتہا پسند گروپس نے اتحاد کر لیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کسی بھی بڑے حملے کے حوالے سے شک کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند ملک کے سکیورٹی نظام کے لیے اب  بھی چیلنج ہیں۔ فاروق کے مطابق: ’سالوں جاری رہنے والے فوجی آپریشنز کے نتیجے میں پاکستان میں عسکریت پسند گروپ کمزورہو چکے ہیں لیکن ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کے سلیپر سیل دہشت گردی کی اکادکا کارروائیاں کرنے کے لیے اب بھی موجود ہیں۔‘

’خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف باقاعدہ کارروائیوں سے اس چینلج سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔‘

سکیورٹی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) اعجازاعوان کے مطابق اسلام میں کیا جانے والا حملہ الگ تھلگ واقعہ ہے۔ ان کے مطابق: ’یہ نہ تودہشت گردی رجحان ہے اور نہ ہی پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر ہے۔ لوگوں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری چوکس اور دلیر سکیورٹی فورسز پہلے ہی عسکریت پسندوں کی کمر توڑ چکی ہیں۔‘

مغربی ملکوں میں ٹی ٹی پی کو نوبیل انعام پانے والی ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کو ہلاک کر چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان