اسرائیلی کمپنی کا چہروں کو فوراً شناخت کرنے والا باڈی کیمرہ

اس کیمرے کی بدولت پولیس کو ہجوم کی سکیننگ کرتے ہوئے موقعے پر مشکوک افراد کو شناخت کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی خواہ ان کے چہرے چھپے ہی کیوں نہ ہوں۔

پولیس کے لیے نئے باڈی کیمرہ پر کام کرنے والے دانی ترزا فوج میں کرنل رہ چکے ہیں (اے ایف پی)

20 سال پہلے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان متنازع رکاوٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے دانی ترزا اب جسم پر لگائے جانے والا ایسا کیمرہ تیار کر رہے ہیں جو چہروں کو فوراً شناخت کر سکے گا۔

اسرائیل فوج میں کرنل رہنے والے ترزا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی یوزموت لمیٹڈ ایسا کیمرہ بنا  رہی ہے جو جسم پر لگایا جا سکے گا اور جس سے پولیس کو ہجوم کی سکیننگ کرتے ہوئے موقعے پر مشکوک افراد کو شناخت کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی خواہ ان کے چہرے چھپے ہی کیوں نہ ہوں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس چہرہ شناخت کرنے کی صلاحیت کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں رازداری کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔

تاہم ترزا سمیت اس ٹیکنالوجی کے حامی ہیں اور مجرموں یا لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے پولیس کے پاس اس صلاحیت کی موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ ترزا کہتے ہیں کہ’پولیس اہلکار کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے سامنے کون ہے۔‘

63 سالہ تیرزا نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستی کفار ادومیم میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہجوم میں موجود لوگوں کی فوری شناخت کے لیے پولیس اہلکار کے جسم پر لگا کیمرہ تیار کرنے کی خاطر تل ابیب میں قائم منصوعی ذہانت کی کمپنی’کورسائٹ‘کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔

یہ کیمرہ لوگوں کو شناخت کر سکے گا چاہے انہوں نے ماسک لگا رکھا ہو، میک اپ کیا ہوا یا کسی دوسرے طریقے سے خود کو چھپا رکھا ہو کیونکہ یہ کیمرہ ان کے چہرے کا موازنہ دہائیوں پرانی تصویروں کے ساتھ کرے گا۔

کورسائٹ کے چیف ایگزیکٹیو افسر روب وتس نے ترزا کے ساتھ شراکت داری کی تصدیق نہیں کی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی دنیا بھر میں ان 230 افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جنہوں نے چہرہ شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کو کیمرے کا حصہ بنایا۔

وتس کا کہنا تھا کہ چہرے کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی اس کے استعمال  کرنے والوں کو ڈیٹابیس تیار کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے خواہ وہ کسی عمارت میں کام کرنے والے ملازمین ہوں، ٹکٹ لیے سٹیڈیم میں داخل ہونے والے تماشائی یا پولیس کو مطلوب مشکوک افراد ہوں۔

مارکیٹ ریسرچ فرم مورڈور انٹیلی جنس کے مطابق چہرے کی شناخت کی صنعت کی مالیت 2020 میں تقریباً 3.7 ارب ڈالرز تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمپنی کے اندازے کے مطابق 2026 تک اس صنعت کا حجم 11.6 ارب ڈالرز ہو جائے گا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فیس بک، مائیکروسافٹ، ایمزون اور آئی بی ایم سبھی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چہرے کی شناخت کے پروگرام فروخت کرنے پر عارضی یا مستقل پابندی کا اعلان کر رکھا ہے۔

فرانس نے گذشتہ ماہ امریکہ میں قائم مصنوعی ذہانت کی کمپنی کلیئرویو کو فرانسیسی شہریوں کا ڈیٹا  حذف کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ کمپنی نے انٹرنیٹ سے لی گئی تصاویر کو استعمال کرتے ہوئے چہرے کی شناخت کے لیے ڈیٹا بیس بنا کر رازداری کی خلاف ورزی کی۔

وتس نے کلیئرویو کے اقدامات کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کور سائٹ’انسانی حقوق اور اخلاقیات‘ کی بنیاد پر اپنی ٹیکنالوجی چین، روس یا میانمار کو فروخت نہیں کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی