’صحافت کے جراثیم انجیکٹ کرنے والے‘ صحافی حافظ ثنا اللہ چل بسے

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور ہزاروں صحافیوں کے استاد حافظ ثنا اللہ کی محبت، شفقت اور محنت سے بھرپور انداز استادی آج بھی ان کے شاگردوں کو یاد ہے۔

80 اور 90 کی دہائی میں یونیورسٹی آف پشاور کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم رہنے والے طلبہ و طالبات حافظ ثنااللہ کے شاگرد رہ چکے ہیں (تصویر بشکریہ: اہل خانہ)

’میں آپ میں صحافت کے جراثیم انجیکٹ کروں گا‘ کہہ کر اپنے شاگردوں کو پڑھانے والے سینئیر صحافی، لکھاری اور ہزاروں صحافیوں کے استاد حافظ ثنا اللہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔

80 اور 90 کی دہائی میں یونیورسٹی آف پشاور کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم رہنے والے طلبہ و طالبات حافظ ثنا اللہ، جنہیں حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے ’حافظ صاحب‘ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا، کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ 

حافظ صاحب کے شاگردوں کو آج بھی یاد ہے کہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے نئے آنے والے طالب علموں کے ساتھ وہ پہلی نشست میں یہ فقرہ ضرور دہرایا کرتے تھے، ’میں آپ میں صحافت کے جراثیم انجیکٹ کروں گا۔‘

حافظ صاحب کے ہزاروں شاگردوں میں سے کئی ایک آج پاکستان میں اور بیرون ملک آسمان صحافت کے درخشاں ستارے ہیں۔  

سادہ لوح اور شریف النفس حافظ صاحب  کا محبت، شفقت اور محنت سے بھرپور انداز استادی آج بھی ان کے شاگردوں کو یاد ہے۔ 

اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ان کے شاگرد لیاقت امین کلاس روم میں حافظ صاحب کے پڑھانے کا انداز یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں: ’حافظ صاحب صوفیانہ مزاج کے مالک تھے، جس کی جھلک ان کے ہر کام میں نظر آتی تھی، وہ ہمیں پڑھاتے بھی صوفیانہ انداز میں تھے۔‘  

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے حافظ صاحب 60 کی دہائی میں حصول تعلیم کے لیے پشاور آئے اور پھر پھولوں کا یہ شہر انہیں ایسا بھایا کہ زندگی کی آخری سانسوں تک یہیں رہے۔   

پاکستان میں اس وقت بہت کم یونیورسٹیوں میں صحافت کی تعلیم دی جاتی تھی، جس کے باعث میدان صحافت کے اکثر شاہ سوار دوسرے مضامین پڑھ کر صحافی بنتے تھے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حافظ صاحب نے بھی اکنامکس میں ایم اے کیا اور صحافت کو کیریئر کے طور پر اپنایا، جس میں ابتدا میں وہ نیوز ایجنسی پریس پاکستان انٹرنیشنل سے منسلک رہے اور بعد ازاں انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کے پشاور میں بیورو چیف بنے۔ 

حافظ صاحب نے پاکستان کے دوسرے اچھے صحافیوں کی طرح مختلف بین الاقوامی صحافتی اداروں کے ساتھ بھی کام کیا، جن میں برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز سر فہرست تھی۔ 

1985 میں پشاور یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی داغ بیل ڈالی گئی تو اس کی سربراہی کے لیے نظر انتخاب پشاور کے عامل صحافی حافظ صاحب پر ہی پڑی اور یوں وہ شعبہ صحافت کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 

بحیثیت چیئرمین جرنلزم ڈپارٹمنٹ حافظ صاحب نے بیش بہاں خدمات انجام دیں اور ہزاروں صحافیوں کو صحافت پڑھائی اور سکھائی۔ 

جرنلزم ڈیپارٹمنٹ، جسے اب ڈیپارٹمنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کہا جاتا ہے، کے موجودہ چیئرمین سمیت اکثر اساتذہ حافظ صاحب کے لگائے ہوئے پودے ہیں۔ 

پشاور یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد حافظ صاحب نے فرنٹیئر سٹار کے نام سے انگریزی کا ایک اخبار بھی شروع کیا تھا، جو ابھی تک پشاور سے نکل رہا ہے۔ 

حافظ صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا اندازِ بیان تھا، جس پر کوہاٹی ہندکو کا اثر غالب محسوس ہوتا تھا اور وہ اردو یا انگریزی بولتے ہوئے اپنی مادری زبان کی چاشنی اور نرم لہجے کو چھپا نہیں پاتے تھے۔ 

ان کے ایک شاگرد نعمان خلیل، جن کی مادری زبان پشاوری ہندکو ہے، اکثر حافظ صاحب کی کوہاٹی ہندکو سے متعلق دلچسپ قصے سنایا کرتے تھے۔   

نعمان خلیل، جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں، اکثر حافظ صاحب کے مخصوص انداز گفتگو کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سخت گرمی میں حافظ صاحب کے گھر گئے تو دروازہ کھولتے ہی استاد محترم گویا ہوئے: ’اتنی گرمی میں آپ نے پائپ لائن (پاپلین) کا جوڑا پہنا ہوا ہے اور ہمارے ہاں تو صبح سے بمبے (نلکے) میں پانی بھی نہیں آ رہا۔‘ 

دوسرے کئی عامل صحافیوں کی طرح حافظ صاحب بھی اپنے کیریئر کی ابتدا میں آزادی اظہار رائے اور میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے اور اس سلسلے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے متحرک رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔ 

جنرل ضیا الحق کے دور اقتدار میں، جب میڈیا قدغنوں کی زد میں رہا، حافظ صاحب نے پشاور میں پی ایف یو جے سے منسلک تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹس کے رکن کی حیثیت سے آزادی اظہار رائے کے لیے کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ 

پاکستانی صحافت کا یہ ستارہ حافظ ثنا اللہ اپنی عمر کی 70 ویں دہائی میں ہم سے بچھڑ گیا۔ بقول شاعر ؎

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان