’میرے کبوتر ایتھلیٹ ہیں‘ یورپی کبوترباز

یورپ میں کبوتر پالنے اور مختلف بین الاقوامی کھیلوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی سب سے بڑی تعداد پولینڈ میں رہتی ہے۔ انہی میں سے ایک کبوتر باز مائیکل ٹروجک کہتے ہیں کہ ‘ان کے کبوتر ایتھلیٹ ہیں۔‘

پولینڈ میں موجود کبوتر بازوں کی تعداد یورپ بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ افراد کبوتر پالنے اور مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھانے کی مخصوص تاریخ رکھتے ہیں۔ مگر نسلی پرندوں کی افزائش میں پولینڈ اب بھی دیگر یورپی ممالک سے پیچھے۔

نسلی پرندوں کی افزائش میں پیچھے رہ جانے کی وجہ اخراجات ہیں جو ان پرندوں کو پالنے پر صرف ہوتے ہیں۔ لیکن اب کچھ ہم خیال لوگوں نے اس سے نمٹنے کا اعادہ کیا ہے۔

مائیل ٹروجک ایک کبوتر باز ہیں اور انہوں نے یہ شوق اپنے دادا سے ورثے میں حاصل کیا ہے۔ مائیکل کے پاس کئی پنجرے ہیں اور ان میں بند کئی نیلے رنگ کے کبوتر۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مائیکل نے ایک آہنی پنجرے کا دروازہ کھولا تو 70 نیلے کبوتروں کا ایک غول پھڑپھڑاتا ہوا برف سے ڈھکے کھیتوں پر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ مائیکل بڑے فخر سے انہیں بلندی پر جاتا دیکھتے رہے۔

مائیل ٹروجک کا کہنا ہے کہ ’ان کے کبوتر ایتھلیٹ ہیں۔‘

کبوتر بازی کے ذاتی سفر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’چند سال قبل میں فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد پیشہ ورانہ طور پر اس کام سے جڑ گیا تھا۔ میں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا۔‘

مائیکل نے دوست کے ساتھ مل کر اعلیٰ نسل کے بیلجیئم کبوتر خریدے اور ہزاروں یورو کی سرمایہ کاری کی جس میں سے 11 ہزار یوروصرف ’نائن الیون‘ نامی پرندے کی پولش نسل پر لگائے۔

سابق فوجی کپتان مائیکل ٹروجک نے بتایا کہ ’کبوتروں نے ہمیں بہت اطمینان اور پیسہ دیا ہے۔‘

اب مائیکل پر امید ہیں کہ پولش کبوتر کے شوقین افراد کے لیے حد آسمان ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پولینڈ کے کبوتر باز ایک دہائی کے اندر اندر اپنے بیلجیئم اور ڈچ کبوتر بازوں کا مقابلہ کریں گے۔

ریس کے گھوڑوں کی طرح یہ بھی پرندوں کا شجرہ نسب ہے جو خریداروں خصوصا ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ’میں اپنے ہر کبوتر کی پچھلی تین یا چار نسلوں کو جانتا ہوں۔ میں ان کے شجرہ نصب کو اپنے شجرہ نصب سے بہتر جانتا ہوں۔‘

کبوتروں کی تربیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹروجک کا کہنا تھا کہ’کبوتر کو خاص شکل میں ڈھالنے کے لیے آپ کو ان کی صحت کی نگرانی اور اچھی خوراک کھلانی پڑتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب پرندوں کو ریس کے لیے تیار کرنا ہو تو میں کبھی کبھی صبح چار بجے اٹھ کر انہیں اڑاتا ہوں اور رات نو بجے تک ختم نہیں کرتا۔‘

کبوتر بازی سے کمائی جانے والی رقم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹروجک کا کہنا تھا کہ ’اب وہ سال میں تقریبا 100 کبوتر فروخت کرتے ہیں جن کی قیمت 100 سے 2500 یورو ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنی فوجی پنشن کے ساتھ ملا کر کافی آرام سے رہ سکتے ہیں۔‘

کبوتر بازی کی یورپی تنظیم اور کھیل

پولش ایسوسی ایشن آف ہومنگ کبوتر پالنے والوں کے سربراہ کرزیزٹوف کاولر نے کہا کہ 40 ہزار سے زائد اراکین کے ساتھ ہم یورپ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کی بنیاد 100 سال سے بھی پہلے رکھی گئی تھی۔

فرانس اور بیلجیم- جہاں کبوتر بازی کی جڑیں گہری ہیں- ان کی تنظیم کے مطابق بالترتیب تقریبا 11,000 اور 13,000 کبوتر پالنے والے ہیں۔

کاولر نے سیلیسیا خطے کے وسط میں کاٹوویس میں ایک تجارتی میلے میں اے ایف پی کو بتایا کہ ہم بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے زیادہ انعامات اپنے گھر لے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان ٹورنامنٹوں میں کبوتر ایک جگہ جمع نہیں ہوتے جیسا کہ عالمی کھلاڑی اولمپکس میں کرتے ہیں۔

اس کی بجائے ہر ملک اپنی مقامی دوڑیں منعقد کرتا ہے جس میں کبوتروں کی پرواز ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں الیکٹرانک انگوٹھیاں پہنائی جاتی ہیں۔

نتائج کا حساب تمام ممالک میں کوایفیشینٹ کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے جس میں شرکت کرنے والے کبوتر کی تعداد کو خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔

ٹروجکزاک کے مطابق چونکہ پولینڈ میں کبوتروں کی افزائش نسل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے تو اس سے انہیں اسکور کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیکن یہ کبوتر کی اصل قدر کی عکاسی نہیں کرتا، پولش کبوتر بازوں کو اب بھی مغربی یورپ میں شوقیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا