’ولیم سراج پڑھتے ہی محسوس ہوا جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی‘

ولیم سراج پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ سا گیا۔ دل میں سوال آیا کہ یہ کہیں وہی ولیم سراج تو نہیں تھے جو ہمارے بچپن میں یونیورسٹی پبلک سکول میں پی ٹی ماسٹر(فیزیکل انسٹرکٹر) تھے؟

اتوار، 30 جنوری 2022 کو پشاور کے ایک چرچ میں نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسیحی پادری ولیم سراج کی تصویر (تصویر: اے پی)

 

کل دفتر کے کام کرنے بیٹھا تو جو پہلی خبر نظروں کے سامنے سے گزری وہ یہ تھی کہ پشاور میں دو مسیحی افراد پر حملہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایک ہلاک اور ایک زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیے گئے ہیں۔

رپورٹ پڑھی تو دونوں کے نام بھی لکھے ہوئے تھے جن میں ایک کا نام پاسٹر پیٹرک اور دوسرے کا پاسٹر ولیم سراج تھا۔

ولیم سراج پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ سا گیا۔ دل میں سوال آیا کہ یہ کہیں وہی ولیم سراج تو نہیں تھے جو ہمارے بچپن میں یونیورسٹی پبلک سکول میں پی ٹی ماسٹر(فیزیکل انسٹرکٹر) تھے؟

جب رپورٹر کی بھیجی ہوئی تصویر دیکھی تو ایسا ہی تھا، یہ وہی ولیم سراج تھے جنہیں بچپن میں ہم ’سر ولیم‘ کہا کرتے تھے۔ وہی ولیم سر جن کے چہرے پہ ہمیشہ ایک مسکان رہا کرتی تھی اور جب بھی میں ان کے سامنے سے گرزتا تو مجھے ’اوئے اسفندیار‘ کہ کر بولتے تھے کدھر جا رہے ہو اور میں اپنا سر نیچے کر کے بولتا تھا کہ سرپانی پینے جا رہاں ہوں چونکہ میں نے کلاس بنک کی ہوئی ہوتی تھی۔

میری والدہ اسی سکول میں استانی تھیں اور میں اور میرا چھوٹا بھائی اس سکول میں کے جی کلاس سے میٹرک تک سٹوڈنٹس تھے اور ہر صبح سکول داخل ہوتے ساتھ ہی پہلی نظر سر ولیم پر پڑتی تھی کیوںکہ سکول میں داخل ہوتے وقت ولیم سر بچوں کی انسپیکشن کرنے کھڑے ہوتے تھے۔

کوٹ پہنا ہے یا نہیں، مفلر لگایا ہے کہ نہیں، موزوں کا رنگ یونیفارم کا ہے کہ نہیں، یہ سب چیک کرنے کے بعد آپکو اندر جانے کی اجازت دی جاتی تھی اور اگر کچھ کمی بیشی ہوتی تھی توپھر ایک سایئڈ پرقطار میں کھڑا کر دیتے تھے۔

ہمیں لگتا تھا کہ آج تو خیر نہیں لیکن جب سب اساتذہ اور سٹوڈنٹس داخل ہوجاتے تو یہ الگ قطار میں کھڑے بچوں کو وارننگ دے کر چھوڑ دیتے تھے، اسی بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سر ولیم کس مزاج کے آدمی تھے۔

سر ولیم اسی سکول کے اندر کوارٹرز میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہتے تھے، اور چونکہ میری والدہ بھی اس ہی سکول میں تھیں تو کبھی کبھار ہم ان کے کوارٹر ان سے ملنے چلے جایا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میٹرک کے امتحان میں پاس ہوا تو سر ولیم مبارک باد دینے اپنی اہلیہ شمیم آنٹی اور بچوں (عدنان اور شمائلہ) سمیت آئے تھے اور 1000 روپے انعام کے طور پہ دئیے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ چھوٹی عید پر عیدی بھی دیا کرتے تھے اور بڑی عید کے موقعے پر سر ولیم کے لیے بھی گوشت کا حصہ الگ سے بھیجا جاتا تھا اور جب گاڑی چلانا سیکھی تو میں اور میرا بھائی ان کا حصہ دینے خود جایا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہماری ہی فیملی کا حصہ تھے۔

سر ولیم ہمارے سکول کے پرنسپل ملک نازصاحب کے بہت قریب تھے،  اور یہ بات سکول کے پیون سے لے کر ہر استاد اور ہر سٹوڈنٹ کو بھی پتہ تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ ایک ایماندار اور خوش اخلاق پرسنیلیٹی کے مالک تھے۔ بچوں کی پرورش ایسے کی کہ ان کی بیٹی آج پشاور پبلک سکول میں استانی ہیں اور بیٹا بھی اسی سکول میں نوکری کرتا ہے اور شمیم آنٹی ایک ریٹائرڈ نرس۔

لیکن ان سے رابطہ کرنا بھی چاہوں اب تو کیسے کروں اور بولوں کیا؟ یہ کہ شرمندہ ہوں ہمارے معاشرے پہ یا یہ کہ جب شمائلہ کے خاوند جب 2013 پشاور دھماکوں میں مارے گئے تو شاید اس وقت ان کو یہ ملک چھوڑ دیا چاہیے تھا، یا یہ کہ اب بھی وقت ہے، آپ لوگ یہاں سے چلے جایئں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ