لاپتہ افغان احتجاجی خواتین کی کوئی خیر خبر نہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان نے کہا کہ اغوا ہونے والی احتجاجی خواتین کے بارے میں جاننے کی بارہا کوششوں کے باوجود طالبان سے کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شامداسانی نے کہا ہے کہ افغانستان میں اغوا ہونے والی احتجاجی خواتین کی صورت حال کو واضح کرنے کے لیے بارہا کوششوں اور درخواستوں کے باوجود ان کی قسمت کے بارے میں تاحال کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

روینہ شامداسانی نےانڈپینڈنٹ فارسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق افغان خواتین کے تحفظ کے لیے طالبان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، خاص طور پر اغوا شدہ خواتین  کی رہائی کے لیے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ چار احتجاجی خواتین اور ان کے اہل خانہ کے متعدد افراد کے اغوا کے تین ہفتے سے زائد عرصے بعد بھی ان کے ٹھکانے یا صحت کی صورت حال کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اغوا شدہ خواتین کی صورت حال پر گہری تشویش ہے۔ ’ہم نے بارہا اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار ایک بیان جاری کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان حکام سے براہ راست رابطہ کر کے کیا۔ طالبان کو واضح جواب دینا چاہیے اور احتجاج کرنے والی خواتین کو رہا کرنا چاہیے۔‘

شامداسانی نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے احتجاج کرنے والی خواتین کی رہائی کے لیے گروپ کے مختلف حصوں میں طالبان حکام سے رابطہ کیا تھا، جن میں وزارت برائے نیکی اور برائی سے منع کرنے کے حکام بھی شامل تھے، لیکن ایک واضح جواب موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے بارہا ان کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور احتجاج کرنے والی خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

شامداسانی نے مزید کہا کہ طالبان حکام نے ابھی تک ان خواتین کے اغوا یا حراست کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور انہوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی درخواستوں کے جواب میں کہا کہ وہ اغوا شدہ خواتین کی تحقیقات کریں گے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ افغانستان میں کسی بھی عورت کو تشدد یا ناروا سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے اور احتجاجی خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک نے خواتین کے احتجاج کو روک دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان خواتین کے اغوا اور قید کے بعد افغانستان میں خواتین کا احتجاج رک گیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ طالبان اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پرتشدد اور غیرقانونی سلوک کر رہے ہیں۔

آٹھ فروری کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے گذشتہ ماہ دوسری بار ایک بیان جاری کیا جس میں افغانستان میں اغوا ہونے والی خواتین کے مستقبل کے بارے میں غیریقینی صورت حال کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’احتجاجی خواتین کے لاپتہ ہونے کے تقریباً تین ہفتے بعد بھی ان کی حالت کا معلوم نہیں ہو سکا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروانہ ابراہیم خیل اور تمینہ زریاب پرانی کے علاوہ، جنہیں 19 جنوری کو کابل میں ان کے گھروں سے اغوا کیا گیا تھا، کابل میں حالیہ مظاہروں میں شامل دو دیگر خواتین مرسل عیار اور زہرہ محمدی کو ان کے گھروں اور دفاتر سے اغوا کیا گیا تھا۔

مرسل عیار کو دو فروری کو ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا اور زہرہ محمدی تین فروری کو کابل میں اپنے دفتر سے غائب ہو گئی تھیں۔

طالبان اپنے اہل خانہ اور دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کوئی جواب نہیں دے رہے جو چاہتے ہیں کہ ان کی صورت حال واضح کی جائے اور ان کی فوری رہائی کی جائے۔

طالبان کے ترجمان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ گروپ کے ارکان کی جانب سے احتجاج کرنے والی خواتین کے اغوا سے لاعلم ہیں اور انہوں نے بین الاقوامی اداروں کے جواب میں کہا ہے کہ وہ تحقیقات کریں گے۔

کابل میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی ایلچی ڈیبورا لائنز نے اتوار (چھ فروری) کو طالبان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اغوا شدہ خواتین کی رہائی کے لیے فوری کارروائی کریں، لیکن طالبان کے نائب وزیر اعظم نے تحقیقات کا وعدہ کیا۔

15 اگست، 2021 کو طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد اور متعدد صوبوں میں ٹارگٹ کلنگ کے بعد افغانستان کے بڑے شہروں میں وسیع پیمانے پر طالبان مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے۔

احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبا دیا گیا لیکن افغان خواتین نے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے کابل میں احتجاج جاری رکھا۔

جب سے تیمنہ زریاب اور پروانہ ابراہیم خیل کو ان کے گھروں سے اغوا کیا گیا تھا، تب سے شہر کی سڑکوں پر کوئی احتجاجی نہیں کی گئی ہے کیونکہ عوامی خدشہ ہے کہ طالبان کی طرف سے خواتین کو نشانہ بنایا جائے گا۔

اس دوران، چھوٹے گروپوں میں ان احتجاجی خواتین نے اپنے گھروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں، جن میں مغوی خواتین کی رہائی اور افغان خواتین کے مطالبات کے لیے عالمی برادری کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیدر بار نے اغوا شدہ افغان خواتین کی زندگی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہیدر بار کا کہنا تھا کہ ’مجھے فکر ہے کہ کیا ہم ان خواتین کو دوبارہ زندہ بھی دیکھ سکیں گے اور یہ کہ وہ کس قسم کا تشدد برداشت کر رہی ہوں گی۔ طالبان کا انکار معتبر نہیں کیوں کہ وہ بہت سے مواقع پر سچ بیان نہیں کرتے۔‘

ہیدر بار نے مزید کہا کہ ’یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ ان خواتین کی حوالگی سے انکار کرتے ہوئے طالبان نے کبھی بھی ایسا پیغام نہیں دیا کہ وہ بامعنی تفتیش کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اگر طالبان نے ان خواتین کو تحویل میں نہیں لیا اور ان کی حکومت ہے تو اس صورت حال پر انہیں بہت تشویش ہونی چاہیے کہ ان خواتین کو مسلح مردوں نے اغوا کر لیا جنہوں نے خود کو رات گئے طالبان خفیہ سروس کے اہلکار ظاہر کیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین